سورۃ الاعراف میں دین کی دعوت دینے کا حکم

دعوت
1۔برائیوں سے روک ٹوک کرنا فرض ہے۔لوگ نہ مانیں تب بھی اس فریضے سے غفلت درست نہیں ہے۔{لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (164) فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنْجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ}
2۔داعی کا کام حق بات مناسب طریقے سے پہنچادیناہے، لوگوں کے ذہن بنانا ہے، زبردستی منوانا اور حق کی تنفیذ حاکم کا کام ہے داعی کا نہیں۔ اس لیے اگر ابلاغ کے بعد کوئی بات نہیں مانتا تو ایک داعی کے لیےاس میں پریشانی کی بات نہیں۔ ہاں! حکومت کا کام ہے کہ وہ حق کو رواج دے اور طاقت کے زور پر اس کا نفاذ کرے۔ {فَلَا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ لِتُنْذِرَ بِهِ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ} [الأعراف: 2]
( از گلدستہ قرآن)

اپنا تبصرہ بھیجیں