سیدہ بیوہ کی زکوٰۃ کی رقم سے مدد کرنا

سوال: سیدہ بیوہ ہیں،جبکہ ان کے شوہر سید نہیں تھے،ان کا ایک بچہ نابینا ہے، آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ۔ایک خاتون سلائی مشین کے لیے زکوٰۃ کے پیسوں سے اس بیوہ کی مدد کرنا چاہتی ہیں،تاکہ وہ سلائی کر کے اپنے گھر کا خرچہ چلا سکے،تو کیا یہ سیدہ بیوہ اپنے بچوں کی خاطر زکوٰۃ کی رقم لے سکتی ہیں؟
الجواب باسم ملھم الصواب!

سیدہ عورت تو بچے کی خاطر بھی زکوٰۃ کی رقم نہیں لے سکتی،البتہ اگر بچہ بالکل چھوٹا ایک دو سال کا نہیں،بلکہ اتنا بڑا اورسمجھ دار ہےکہ اسے پیسے کا استعمال آتا ہے تو زکوۃ کی رقم براہ راست بچے کے قبضے میں دے دی جائے یا والدہ بچے کی طرف سے وکیل بن کر زکوٰۃ وصول کر لے اور پھر بچے کے اخراجات میں خرچ کرلیا کریں۔لیکن ان پیسوں سے اپنی ذات کے لیے پھر بھی سلائی مشین نہیں لے سکتی،البتہ اگر بچہ بالغ اور سمجھدار ہے تو زکوۃ کی رقم وصول کرکے اپنی والدہ کو ہدیہ کے طور پر دیدے اور پھر والدہ سلائی مشین خرید کر اپنے اخراجات پورے کرلیا کریں۔

——————-

حوالہ جات
1۔”منْ كَانَتْ أُمُّهَا عَلَوِيَّةً مَثَلًا وَأَبُوهَا عَجَمِيٌّ يَكُونُ الْعَجَمِيُّ كُفُؤًا لَهَا، وَإِنْ كَانَ لَهَا شَرَفٌ مَا ؛ لِأَنَّ النَّسَبَ لِلْآبَاءِ، وَلِهَذَا جَازَ دَفْعُ الزَّكَاةِ إلَيْهَا فَلَا يُعْتَبَرُ التَّفَاوُتُ بَيْنَهُمَا مِنْ جِهَةِ شَرَفِ الْأُمِّ وَلَمْ أَرَ مَنْ صَرَّحَ بِهَذَا۔
(رد المحتار:198/4)

2۔”(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلايصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير۔“
(رد المحتار:356/2)

3۔ولا یدفع إلی بني ہاشم وھم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقیل وآل الحارث بن عبد المطلب۔
(الفتاوی الھندیة:189/1)

4۔سوال:میرے ایک تایا زاد بھائی تھے،ان کا انتقال ہوگیا،وہ خود سید نہیں تھے،لیکن بیوی جو انہوں نے چھوڑی،وہ سید ہے،ان کے تین چار نابالغ بچے بھی ہیں،کیا ان کو شرعاً زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔الخ؟
جواب: ان بچوں کو زکوٰۃ دینا درست ہے،نسب باپ سے چلتا ہے،ان بچوں کا باپ سید نہیں تھا۔

(فتاوی محمودیہ:332/22)

واللّٰہ اعلم بالصواب

26 ذوالحجہ 1444ھ
15 جولائی 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں