تفسیر کی اقسام

تفسیر کی اقسام
قرآن کریم کی تفسیرمتعدد دو پیرایوں میں کی گئی ہے:کہیں محدثانہ رنگ غالب ہےتوکہیں درایت وکلام کا۔کسی نے بلاغت قرآن کو ظاہر کرنے کا بیڑا اٹھایاہےتوکسی نےاحکام کی آیات کا۔کہیں قرآن کریم کی صرفی نحوی تراکیب پر کام ہوا ہےتو کہیں اس کے سائنسی انکشافات پر۔کسی نے مختصر تفسیر لکھی ہے تو کسی نے طویل۔تفسیر اور ترجمہ قرآن پر کام دنیا کی متعدد زبانوں میں ہوا ہے۔کچھ تفاسیر ایسی بھی ہیں جو متعدداسالیب کو سموئے ہوئے ہے۔پھر ہر ایک صنف کی متعدد اقسام ہیں۔
ابن کثیر اور علامہ بغوی جیسے مفسرین نے تفسیر بالروایۃ کرتے ہوئے روایات میں صحیح وسقیم کا خیال رکھاہے جو یقیناقابل قدراورمستند کام ہے۔دوسری طرف علامہ سیوطی اورعلامہ ثعلبی جیسے مفسرین ہیں جنہوں نے رطب ویابس جمع کردیا ہے۔
تفسیر بالدرایہ میں امام رازی کی تفسیر کبیر اور قاضی بیضاوی کی تفسیر بیضاوی مشہور زمانہ ہیں۔علامہ آلوسی کی روح المعانی اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی تفسیر مظہری مجمع البحرین کامنظر پیش کرتی ہیں یعنی ان حضرات نے روایت ودرایت دونوں کوجمع کردیاہے۔
زمخشری نے بلاغت اور معانی پر زیادہ زور دیا ہے جبکہ روایات رطب ویابس جمع کردی ہیں۔بعض عرب علما نے اعراب اور صرف ونحو پر فوکس کیا ہے۔ایک بڑا کام احکام القرآن پر بھی ہوا ہے جس میں امام جصاص رازی، امام قرطبی اور مولانا اشرف علی تھانوی جیسی قدآور شخصیات کا نام آتاہے۔
ان سب کے ساتھ ایک کام باطنیہ کا بھی ہے جنہوں نے تفسیر بالدرایہ کے نام پرامت کو دھوکا دینے کی کوشش کی۔انہوں نے تفسیر باطنی کی اصطلاح نکالی اوردعوی کیا کہ قرآن کا جو ظاہر ہے باطن اس کےعلاوہ ہےپھرخود ہی ظاہرقرآن کےباطنی معنی گھڑےاورقرآن کریم میں تحریف معنوی کرنے کی کی کوشش کی جوالحمدللہ! مکمل طور پر ناکام ہوئی۔اردوتفاسیر میں بےمثال تفسیر،تفسیربیان القرآن ہے۔بیان القرآن کی افادیت کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جس نے تمام عربی تفاسیر کا مطالعہ کررکھا ہو۔یہ تفسیر اردومیں ہے لیکن اس کے حواشی عربی میں ہیں۔اس تفسیر میں آپ کو حدیث،فقہ،بلاغت،کلام، صرف ونحو،فن قراءت،اسباب نزول،ربط آیات سبھی یکجامل جاتا ہے۔بیان القرآن مشکل اردومیں لکھی گئی ہے اس کے کچھ حصوں کی تشریح کا کام مفتی شفیع صاحب نے انجام دیا ہے جس کانام تفسیر معارف القرآن ہےاس میں فقہ اور حدیث دونوں کا رنگ چھلکتا ہے۔
مولاناادریس کاندھلوی صاحب نے بھی معارف القرآن کے نام سے تفسیر لکھی ہے۔ان کی تفسیر پر محدثانہ رنگ غالب ہے۔شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی کا”آسان ترجمۂ قرآن”نرالی شان رکھتاہے۔ترجمہ ایساپرمغزاوربامحاورہ ہے کہ اسی سے مطلب سمجھ آجاتا ہے اور تشریحات ایسی زبردست ہیں کہ بہت سے مقامات جو بڑی بڑی اردوتفاسیر سے حل نہیں ہوتے وہ اس سے حل ہوجاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں