والدین کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینا

فتویٰ نمبر:681

استفتاء : کیا والدین کے کہنے پر بیوی کو طلاق دے دینی چاھئی؟ُ

سائلہ بنت احمد

الجواب باسم ملھم الصواب 

والدین کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینا جائز نہیں اگر بیوی نیک ہے نماز روزہ کی پابند ہے اور میاں بیوی دونوں میں محبت ھو اور وہ ایک دوسرے کے بغیر صبر نہ کر سکتے ہو کیونکہ جہاں والدین کے حقوق کی ادائیگی اہم فریضہ ہے اس طرح بیوی کے حقوق کی ادائیگی اور اس کے نان نفقہ کی ذمہ داری بھی شوھر پر لازم ہے جسے ادا نہ کرنے پر آخرت میں مؤاخذہ ہے، لہذا شوھر کے والدین کو چاہیے کہ بہو کو بیٹی کی طرح سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ نباہ کرنے کی کوشش کریں بصورت دیگر شوھر کے لیے لازم ھیکہ بیوی کے حقوق اور اپنے والدین کے حقوق کی مکمل ادائیگی کا خیال رکھے اور کسی کی حق تلفی نہ کرے اور اگر کسی طور پر ساس اور بہو کا ساتھ رہنا ممکن نہ ہو اور جھگڑوں کی نوبت آرہی ہو تو اب شوھر کو چاھیے کہ اسی گھر میں رہتے ہوئے اپنی بیوی کا چولہا الگ کر دے  لیکن والدین کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ کرے اور اگر چولھا الگ کرنے سے بھی بات نہ بنتی ہو اورجھگڑے کی نوبت آتی ہو، تو پھر شوہر کو چاھیے کہ بیوی کے لیے الگ گھر کا بندوبست کرے۔

وکذا تجب لھا السکنی فی بیت خال عن اھلہ واھلھا بقدر حالھما کطعام وکسوۃ وبیت منفرد من دار لہ غلق (مشکاۃ 599/3)

وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالی : وَعَاشِرُوْھُن بالمعروف وان کرھتموھن فعسی ان تکرھو شیئا وھو خیر لکم (سورۃ النساء 19 )

واللہ اعلم بالصواب 

بنت حبیب 

4 جمادی الاولی 1438 

3 فروری 2017 

صفہ آن لائن کورسز

اپنا تبصرہ بھیجیں