وسوسوں کا آنا اور اس کا علاج

 ﴾رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۷۷﴿

سوال:-    وسوسے کیوں آتے ہیں اور اس کا علاج کیا ہے؟

سائل :ام عثمان

اسلام آباد

جواب :-       شیطان جو کہ انسان کا ازلی دشمن ہے ، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان کو سکون سے نہ  رہنے دے۔ اس لیے وہ ہر ایک کو اس کے حال و ایمان کے سطح کے مطابق وسوسے ڈال کر پریشان کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔اس کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ انسان کو اس کے خالق کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کردے ،جب اس پر بس نہیں چلتا تو سب سے اہم عبادت نماز کے اندر اس کے دل میں خیالات ڈالتا رہتا ہے۔کبھی وضو کے بارے میں تو کبھی طہارت کے بارے میں ۔کبھی میاں بیوی کے درمیان تو کبھی دو مسلمانوں کے درمیان شکوک و شبہات کے ذریعے اختلافات ڈالتا رہتا ہے۔غرض یہ کہ یہ شیطانی وسوسے ساری زندگی چلتے رہتے ہیں۔ وسوسوں کا آنا انسان کے اختیار میں نہیں؛لیکن اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا انسان کے اختیار میں ہوتا ہے؛تاہم اس سے ایمان میں کچھ فرق نہیں آتا جب تک ان وسوسوں کو زبان پر نہ لایا جائے یا اس کے مطابق عمل نہ کیا جائے۔

صحيح البخاري – (3 / 145)

 عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن الله تجاوز لي عن أمتي ما وسوست به صدورها، ما لم تعمل أو تكلم»

ایک روایت میں وسوسوں کے آنے کو صریح ایمان کہا گیا ہے۔کیونکہ چور وہیں چوری کرنے کے لیے جاتا ہے جہاں دولت ہو اور شیطان بھی وہیں زیادہ زور لگاتا ہے جس دل میں ایمان ہو۔

صحيح مسلم – (1 / 119)

 عن أبي هريرة، قال: جاء ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به، قال: «وقد وجدتموه؟» قالوا: نعم، قال: «ذاك صريح الإيمان»،

احادیث مبارکہ میں وسوسے کے علاج کے لیے دُعائیں تجویز کی گئی ہیں، جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر عقیدے کے بارے میں وسوسے آئے تو اٰمَنْتُ بِاللہ وَرُسُلِہ پڑھ لیا جائے،نماز میں وسوسے آئے تو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ،دیگر معاملات میں وسوسے آئے تو لاحول ولاقوۃ  پڑھ لیا جائے،اس کے علاوہ ایک سیدھا سا علاج یہ ہے کہ جو بھی وسوسہ آئے ،فور اً اس خیال کو چھوڑ کر دوسرے خیال میں خود کو مشغول کیا جائے۔وسوسوں کے بارے میں جتنا سوچا جائے گااتنے ہی زیادہ ہوتے جائیں گے۔اور جب اس کی طرف توجہ نہ دی جائے تو خود بخود دور ہوجاتے ہیں۔لہٰذا ان کے بارے میں سوچا نہ جائے اورمسنون دعاؤں سے اس کا علاج کیا جائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں