وضوسے فارغ ہونے کے بعد آسمان کی طرف نظر اٹھانا

سوال : ابوداود شریف کی روایت میں (ثم رفع نظره الی السماء) کی زیادتی کیا منکر اور غیر معتبر ہے ؟ اور قابل عمل ہے یا نہیں؟

الجواب : یہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث ہے  جس کی روایت مسلم (234) ابوداود (169) ترمذي ( 55) ابن ماجہ (470)وغیرہ نے کی ہے ۔ 

ابوداود شریف کے الفاظ یہ ہیں : (عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « ما مِنكم مِن أحدٍ يَتَوَضَّأ فيُحسِنُ الوضوءَ ثمَّ يقولُ حينَ يَفرُغُ من وضوئه : أشهَدُ أن لا إله إلا اللهُ وحدَه لا شريكَ له ، وأنَّ محمَّداً عبدُهُ ورسولُه  إلا فُتِحَت له أبوابُ الجنَّةِ الثمانيةُ يَدخُلُ من أيِّها شاء ).

لیکن یہ زائد الفاظ : (ثم رفع نظره الی السماء) اس حدیث کے صرف بعض طرق واسانید میں وارد ہوئے ہیں ، اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت ثوبان اورحضرت انس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہیں ۔

مذکورہ زیادتی کی تفصیلی تخریج ملاحظہ فرمائیں :

۱۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت :

( ابوداود (۱۷۰) مسنداحمد(۱۲۱) میں : ( ثُمَّ رَفَعَ نَظَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله … )ہے ۔

ابو یعلی (۲۴۹) بزار(۲۴۲) میں : (ثُمَّ رَفَعَ بَصَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ) ہے۔

ابن ابی شیبہ (۲۹۳۱۱ ) میں : (ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ) ہے۔

دارمی (۷۴۳) میں 🙁 ثُمَّ رَفَعَ بَصَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ – أَوْ قَالَ : نَظَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ) ہے۔

لیکن یہ تمام کتابوں میں یہ حدیث ایک ہی سند سے منقول ہے جس کی روایت ابوعقیل زھرہ بن معبد اپنے چچا زاد بھائی سے اور وہ حضرت عقبہ بن عامر سے کرتے ہیں ۔

سند حدیث میں ایک راوی مجہول غیر معروف ہے اور وہ ہے ابو عقیل کا چچا زاد بھائی (ابن عمہ)اس لئے محدثین اس روایت کو (ضعیف منکر )قرار دیتے ہیں ضعیف اس لئے کہ (ابن عمہ ) کا حال معلوم نہیں ہے اور منکر اس لئے کہ یہ زائد الفاظ اسی سند سے منقول ہیں ، دوسری اسانید کے راویوں نے ذکر نہیں کئےتو یہ تفرد جو مجہول راوی سے ہوا یہ محدثین کے نزدیک مقبول نہیں ۔

ہاں یہ زائد الفاظ حضرت ثوبان اور حضرت انس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہیں لیکن دونوں حدیثیں نہایت ضعیف اور غیر معتبر ہیں اس لئے ان سے ابوداود والی روایت کو تقویت نہیں مل سکتی ہے ۔

۲۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت مسند بزار میں بروایت ( شجاع بن ولید ، عن ابی سعد البقال ، عن ابی سلمہ، عن ثوبان) وارد ہے۔

اس کی سند کے دو راویوں پر محدثین نے جرح کی ہے :

۱۔ شجاع بن الولید میں ابوحاتم رازی نے کلام کیا ہے ، اگرچہ بقیہ نقاد نے ان کی توثیق کی ہےلیکن یہاں ان کا تفرد بھی ہے چونکہ یہ زائد الفاظ ابو سعد بقال سے صرف انہوں نے ذکر کئے ہیں جبکہ ابو سعد سے روایت کرنے والوں میں (علی بن یزید، هانئ بن سعید ، المعافى بن عمران ، يعلى بن عبید) ان چاروں نے ذکر نہیں کئے۔

۲۔ ابوسعد سعید بن مرزبان بقال ، محدثین کے یہاں منکر الحدیث اور غیر قابل احتجاج ہے اور ابوسلمہ سے ان کی روایت کے اتصال میں شک ہے۔

اور ابو حاتم رازی فرماتے ہیں کہ : میرے علم میں ابوسلمہ نے ثوبان سے ایک ہی حدیث نقل کی ہے جس کی روایت ابو سعد کرتے ہیں ، اور وہ یہی حدیث ہے لیکن یہ منکر ہے۔

رہ گئی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت اس کی تخریج خطیب بغدادی نے (تاریخ بغداد) میں :عیسی بن یعقوب الزجاج کے ترجمہ میں کی ہے لیکن اس کی سند میں (دینار ابو مکیس حبشی )ہے جومتہم بالکذب ساقط الروایت ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ : (ثم رفع نظره ) والی زیادتی کسی مضبوط سند سے منقول نہیں ہے اور حدیث کے الفاظ میں اضطراب بھی ہے مگر ضعف کے باوجود اس پر عمل کی گنجائش ہے جیساکہ کتب فقہ میں مذکور ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں