کیا لبرل ازم صرف ایک “رویہ” ہے؟

مسلمانوں کا مغربی تہذیب قبول کرنا یا اس سے متاثر ہونا اتنا زیادہ تباہ کن ہے کہ اسلام کی آج تک کی تاریخ میں اتنے متاثر کن اور خطرناک حملے کی تفصیل نہیں ملتی۔ قرون وسطیٰ میں جب سلطنت روما کا زوال ہوا تو یونانی فلسفہ بھی اپنی موت آپ مرنے لگا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان فلاسفہ نے محسوس کیا کہ یونانی فلسفے میں کچھ ایسے نکات موجود ہیں جو اسلامی فلسفے کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں چنانچہ اس زمانے کےمسلمان فلسفیوں ابن رشد،الفارابی اور ابن سینا نے یونان کے نزع کے عالم میں پہنچے ہوئے فلسفے کو حیات تازہ عطا کی اور اس فلسفے کو اس کا جائز مقام عطا کرکے علمی طور پر اس کا رد کیا۔ امام غزالی نے تو یونانی فلسفے کی ایسی دھجیاں بکھیریں کہ یورپ کے فلاسفہ بھی غزالی کے ذہن نکتہ رس پر داد دینے پر مجبور ہو گئے۔ واضح رہے کہ یہ اسلام پر تہذیبی حملہ نہیں بلکہ محض فلسفیانہ مباحث تھے جن سے اسلام کی تہذیب کو کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔
اسی طرح تاتاریوں کی عالم اسلام پر یلغار بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے تاتاری ایک وحشی قوم سے تھے جو لوٹ کھسوٹ کرنے نکلے اور دنیا بھر میں پھیلتے چلے گئے۔ ان کا عالم اسلام پر حملہ بھی “تہذیبی حملہ” نہیں صرف ہوس ملک گیری تھی۔ لہٰذا ان کے حملوں سے مسلمانوں کی تہذیب وثقافت پر کوئی اثر رونما نہ ہوا۔
آج ہم اکیسویں صدی میں زندہ ہیں آج کا عالمی منظر نامہ یہ ہے کہ مغرب اپنی ایک الگ تشخص اور تہذیب رکھتا ہے اور اس پر فخر بھی کرتا ہے۔مغربی تہذیب میں “خدا” کا مقام یہ ہے کہ خدا ایک ایسا شر ہے جسے سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
“God is unthinkable evil”
خدا سے نجات پانے کے لیے مغرب نے کلیسا سے صدیوں تک پنجہ آزمائی کی ہے۔ اگر ہم کلیسا اور مغرب کے فلاسفہ کی صدیوں کی بحثوں کا نچوڑ دو لائنوں میں نکالیں تو وہ یہ تھا کہ کلیسا کے پاس صرف دو سوال تھے جن پر مغربی فلسفے کی ساری عمارت دھڑام سے گر جاتی اور کلیسا کے منارے پر لگے کلس چمک اٹھتے تھے۔
پہلا سوال یہ کہ اگر کائنات کو خدا نے پیدا نہیں کیا تو پھر کس نے پیدا کیا؟
دوسرا یہ کہ انسان کی اس زندگی کا مقصد کیا ہے؟
پہلے سوال کا ادھورا اور ناقابل تسلی جواب ڈارون ازم نے دیا اور مغرب نصف دھڑ تک الحاد کے غلیظ گٹر میں دھنس گیا کیونکہ وہ بہرصورت کلیسا سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔جبکہ دوسرے سوال کا انتہائی متنازعہ جواب مارکس ازم نے دیا اور مغرب اپنی ساری تہذیب سمیت دہریت میں غرق ہو گیا۔
اگر بات یہیں تک رہتی تو بھی کچھ قابل برداشت تھا لیکن بہت جلد مغرب نے اپنی متعفن تہذیب پر لبرل ازم اور سیکولرازم کی خوشبو چھڑک کر فروخت کرنا شروع کردیا۔ مغرب اس وقت تک پوری دنیا پر غالب طاقت بن چکا تھا۔ اس غالب طاقت کا یہ تہذیب وفلسفہ جب پاکستان میں آیا تو اس نے کمال ہوشیاری اور چابکدستی سے پاکستانی معاشرے میں ضم ہونے کے لیے اپنے بدنما چہرے پر اسلامی میک اپ کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ شوریٰ کا مطلب پارلیمنٹ کو قرار دیا جانے لگا، اسلام کا تصور خلافت بلاوجہ غلط باور کرایا گیا اور اس کے مقابلے میں “جمہوریت” کو رائج کردیا گیا،پوری اسلامی تاریخ کو “بادشاہت” سمجھ کر اس پر ندامت کا اظہار کیا جانے لگا، اسلام کے حقوق العباد کے مقابلے میں “انسانی حقوق” کا شوشہ چھوڑا گیا، اسلامی تصور دولت مندی کو بعینہ “سرمایہ داری” سمجھا جانے لگا، اسلام کے تصور حفظ ومراتب کو “مساوات” کا چولا پہنا دیا گیا، اور اسلام کے تصور رواداری و اعتدال کو “لبرل ” کے مکروہ لفظ سے منسوب کردیا گیا۔ اور اس پورے عمل کو “لبرل ازم” کہہ کر پکارا جانے لگا۔
چونکہ یہ ایک غالب تہذیب کا دوسری تہذیب سے ٹکراؤ تھا، ایک تمدن کا دوسرے تمدن سے اعلان جنگ تھا اس لیے اس نے مغلوب قوم کے دماغوں پر حملہ کرتے ہوئے انہیں شرمندگی کے احساس میں مبتلا کرکے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔
کچھ لوگ آج کہہ رہے ہیں کہ لبرل ازم کوئی “ازم” نہیں محض ایک “رویہ” ہے۔
جی ہاں لبرل ازم اسلام سے متعلق معذرت خواہانہ اور شرمسار “رویے” کا نام ہے۔
ثوبان تابش
 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں