اگر کوئی شخص داڑھی رکھنا چاہتا ہے اور اس کی بیوی راضی نہ ہو تو کیا حکم ہے

اسلام علیکم مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص داڑھی رکھنا چاہتا ہو لیکن اس کی بیوی اس پر راضی نہ ھو تو اس کے کیا شرعی حکم ہے برائے کرم رہنمائی فرمائے۔

فتویٰ نمبر:172

جواب :سب سے پهلے ہم ” داڑهی ” کی شرعی حیثیت جان لیتے ہیں!
ایک مٹهی کے بقدر داڑهی رکهنا ” واجب ” ہے  اور ایک مٹهی ( یعنی ایک قبضه ) سےپہلے  کٹانا تمام ائمه کرام ( چارو مذاهب میں ) ایک مشت سے کم ہو نے کی صورت میں اس کا کاٹنا تمام ائمه کرام کے نزدیک ” حرام ” ہے .

ہمارے  نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا!
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَالِفُوا الْمُشْرِکِينَ وَفِّرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوْ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَی لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ
* صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 856 حدیث مرفوع *

ترجمه: محمد بن منہال، یزید بن زریع، عمر بن محمد بن زید، نافع، ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ، مونچھیں کترواؤ اور حضرت ابن عمر (رض) جب عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی مٹھی سے پکڑتے اور جتنی زیادہ ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔

داڑهی کی مثال ( نماز وتر جیسی ہے  ) جس طرح سے نماز وتر ہم  پر واجب ہے  حدیث کی رو سے ٹهیک اسی طرح داڑهی رکهنا ” واجب ” ہے  واجب پر عمل کرنا ” فرض ” ہے .

آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی سنت ہے  ، ہمارے  نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم نے اس کے رکهنے کا حکم فرمایا هے ” داڑهی منڈے کے لئے هلاکت کی بد دعا فرمائی اور اس کی شکل دیکهنا گوارا نهیں فرمایا جو مسلمان کہےکہ  مجهے فلاں شرعی حکم سے نفرت ہے وه مسلمان نهیں رہا وه ” کافر و مرتد ” بن جاتا ہے .
داڑهی رکهنا بهی شرعی حکم ہے  اس پر عمل کرنا فرضہے  جو شخص داڑهی کو حقیر سمجهے  ہلکا  سمجهتے هوئے داڑهی کا مزاق اڑایا کریں تو ایسا شخص شرعا دائره اسلام سے خارج ہو کر کافر و مرتد بن جاتا ہے .

حضرت حکیم الامت مجد د ملت حضرت مولانا اشرف علی تهانوی رحمه الله تعالی ” امدادالفتاوی جلد نمبر ۴ ” میں لکهتے ہیں ” داڑهی رکهنا واجب اور قبضے سے زائد کٹانا حرام ہے  “

نوٹ: یهاں قبضے سے زائد کٹانے سے مراد یہ ہے کہ جس کی داڑهی قبضے سے زائدہو  اس کو قبضے سے یعنی اپنی مٹهی میں پکڑ کر جو ایک مٹهی سے زائد حصه هے اس کا کٹانا تو جائزہے  اور اتنا کٹانا که جس کی وجه سے داڑهی ایک قبضے سے کم ره جائے یه حرام ہے .
اور مزید لکهتےہیں 

حدیث میں جن افعال کو تغیر ” خلق الله ” موجب لعن فرمایا ، داڑهی منڈوانا یا کٹوانا بالمشاهده اس سے زیاده تغیر کا اتباع شیطان هونا اور اتباع شیطان کا موجب لعنت و موجب خسران و موجب جهنم هونا منصوص هے.
اب اس کی جتنی زیاده مذمت کی جائے کم هے.

مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمه الله تعالی نے ” لاَتَبدِیلَ لِخَلقِ اللهِ ” کی تفسیر میں لکهتے هیں.
وه الله تعالی کی بنائی هوئی صورت کو بگاڑا کریں گے اور یه اعمال فسق میں سے هے.
جیسے داڑهی منڈوانا ، بدن گدوانا وغیره.
لهذا ایک مٹهی سے کم داڑهی رکهنے والے مردوں کا شمار ( فاسق ) افراد میں هوتا هے شرعا ان فاسق لوگوں کی گواهی بهی مقبول نهیں هوتی.

اب رہی  ایسی عورت جو داڑهی سے نفرت کرے یا جو اپنے شوہر  کو داڑهی کاٹنے پر مجبور کرتی هو ایسی عورت ” لعنتی ” هے ، سخت گناه گار هے.
اسے کوئی حق نهیں که یه اپنے شوهر یا اپنے بیٹے کو داڑهی رکهنے سے منع کرے کیونکه یه الله کا حکم هے جو چیز تمهیں نبی صلی الله علیه وآله وسلم دے اسے لو اور جس سے منع کرے اس سے منع هوجاوں.
* مفهوم آیت قرآن *

اب مخلوق میں سے کسی کو کوئی حق نهیں که وه الله کے نازل کرده احکامات پر کسی کو عمل کرنے سے منع کرے.
اب اگر اس کا شوهر اس عورت سے یه کہے  که تم اپنے سر کے بال پورے منڈواکر صاف کردو تو کیا یه عورت اپنے لئے یه بات پسند کرے گی ؟ ہر  گزنہیں  کرے گی.
ٹهیک اس بات کا بهی یهی مطلب هوتا هے اگر ایک عورت اپنے شوہر  سےکہے  که داڑهی منڈواکر صاف کردو یا ایک مٹهی سے کم کردو یه بات کہنا  بهی ناجائز ہے .
والله اعلم بالصواب

الله تعالی عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ___ آمین.

* تفسیرمعارف القرآن:جلد2 ص59 ، امدادالفتاوی:ج4 ص223 *
* صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 856 حدیث مرفوع *

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں