اللّٰہ کی صفات متشابہات

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۱۷﴾

سوال:-        قرآن مجید میں وجہ ید اور استواء علی العرش جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس کے کیا معنی ہیں؟

سائل:محمد آصف، گارڈن ایسٹ کراچی

جواب :-       مذکورہ الفاظ  صفات ِ متشابہات میں سے ہیں جن کے معنی معلوم تو ہیں مگر  اس کے ظاہری معنی کواللہ تعالی کے لیے ثابت کرنااور اللہ کے لیے اس کی کیفیت کو ثابت کرنا اہل حق کے نزدیک درست نہیں  کیونکہ اللہ  تعالیٰ مخلوقات  کے مشابہ نہیں (لیس کمثلہ شیئ)،نیز اللہ تعالیٰ اعضا ء سمیت ہر چیز کی احتیاج سے پاک ہیں۔

اس لیے ان صفات (وجہ،عین،استوا علی العرش)سے متعلق اہل سنت والجماعت کے متقدمین اور متاخرین جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ان صفات کو مانتے تو ہیں لیکن ہم ان کا ظاہری معنیٰ مراد  لینا جائز نہیں ۔پھر جمہور علماء تو ان الفاظ  کے معنیٰ کو اللہ تعالیٰ  کے سپرد کردیتے ہیں کہ ہم ان الفاظ پر تو ایمان لاتے ہیں لیکن ان کے حقیقی معنیٰ کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔جبکہ اہل سنت  کے ہی دیگر بعض علماء  ان الفاظ  سے ان کا باطنی مطلب مراد لیتے ہیں۔مثلاً اس حدیث ” مومن کا دل اللہ کی دوانگلیوں کے درمیان ہے“ کا مطلب ان علماء نے تاویل کر کے یہ  بیان کیا ہے کہ یہاں دو انگلیوں سے مراد اللہ کی قدرت اور غلبہ ہے۔

اسی طرح قرآن میں ”وجہ“کو اللہ کی رضامندی سے تاویل کیا  ہے اور استوا علی العرش  سے حاکمیت مراد لی ہے۔بہرحال اہل حق کے یہ دونوں مسلک درست ہیں ۔تاہم  ان الفاظ سے ان کے حقیقی معنیٰ مراد لینا جائز نہیں۔ نیز ان امور میں زیادہ غور و خوض کرنا شرعاً مطلوب نہیں،بلکہ نقصان دہ ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے۔اس لیے اس میں زیادہ انہماک سے بچنا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقط والله المؤفق

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں