عورتوں کی تراویح کا حکم

سوال: کیا عورتیں تراویح پڑھاسکتی ہیں ؟ جبکہ عورت کو مائیک میں نہیں پڑھاناہے اور آؤاز بھی باہر نہیں جاتی اور پڑھنے والی بھی سب عورتیں ہیں؟

فتویٰ نمبر:166

الجواب حامداً ومصلیا

عورتوں کو گھروں میں اکیلے اکیلے نمازِ تراویح ادا کرنے کا حکم ہے،اس لئے عورتوں کو اکیلے اکیلے نمازِتروایح ادا کرنی چاہیے،جماعت سے بچنا چاہیےکیونکہ ان کے حق میں جماعت مکروہ تحریمی ہے تاہم اگر کوئی عورت حافظہ ہو اور اس کے لئے تراویح میں سنائے بغیر قرآن ِ کریم یاد رکھنا مشکل ہو تو چونکہ قرآن پاک کو بھلادینا بڑا گناہ ہے  اس لئے اس گناہ سے بچنے اور قرآن ِ کریم کو یاد رکھنے کی غرض سے مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدّس سرّہ حافظہ عورت کے لئے بلا تداعی ( بغیر اعلان کے ) صرف گھرکی خواتین کو با جماعت تراویح پڑھانے کی اس شرط کے ساتھ اجازت دیا کرتے تھے کہ حافظہ عورت کی آواز گھر سے باہر نہ جائے اور تداعی سے پرہیز کیا جائے ۔ تداعی کا مطلب یہ ہے کہ :

(الف    اس کے لئے باقاعدہ اہتمام کر کے خواتین کو نہ بلایا جائے ۔
( ب )   اگر چہ اہتمام سے خواتین کو نہ بلایا جائے ، لیکن اقتداء کرنے والی خواتین صرف حافظہ کے گھر کی ہوں ، باہر سے آکر شریک نہ ہوں۔لیکن اقتداء کرنے والی خواتین کی تعدادقرآن سنانے والی خاتون کے علاوہ دو یا تین سے زیادہ نہ ہو۔
لہٰذا جہاں تک ہو سکے حافظہ خواتین کو بھی تراویح کی جماعت سے پرہیز کرنا چاہیے  البتہ بوقت ِ ضرورت درج بالا شرائط کے ساتھ مذکورہ گنجائش پر عمل کیا جا سکتا ہے البتہ عورت جب امام ہوتو وہ صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی  مرد امام کی طرح آگے کھڑی نہیں ہوگی ۔( کذا فی التبویب : 1466/62)
=================
الدر المختار – (2 / 43)
(التراويح سنة) مؤكدة لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعا.
=================
الدر المختار (1/ 565)
(و) يكره تحريما (جماعة النساء) ولو التراويح في غير صلاة جنازة (لأنها لم تشرع مكررة) ، فلو انفردن تفوتهن بفراغ إحداهن ولو أمت فيها رجالا لا تعاد لسقوط الفرض بصلاتها إلا إذا استخلفها الإمام وخلفه رجال ونساء فتفسد صلاة الكل (فإن فعلن تقف الإمام وسطهن) فلو قدمت أثمت إلا الخنثى فيتقدمهن (كالعراة) فيتوسطهم إمامهم. ويكره جماعتهم تحريما فتح.
=================
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 565)
(قوله ويكره تحريما) صرح به في الفتح والبحر (قوله ولو في التراويح) أفاد أن الكراهة في كل ما تشرع فيه جماعة الرجال فرضا أو نفلا (قوله لأنها لم تشرع مكررة إلخ)۔۔۔۔۔ (قوله تقف الإمام)۔۔۔۔۔۔(قوله وسطهن)۔۔۔۔۔۔(قوله فلو تقدمت) أثمت. أفاد أن وقوفها وسطهن واجب كما صرح به في الفتح، وأن الصلاة صحيحة، وأنها إذا توسطت لا تزول الكراهة، وإنما أرشدوا إلى التوسط لأنه أقل كراهية من التقدم كما في السراج بحر (قوله فيتقدمهن) إذ لو صلى وسطهن فسدت صلاته بمحاذاتهن له على تقدير ذكورته ح أي وتفسد صلاتهن أيضا (قوله فيتوسطهم إلخ) أشار به إلى أن التشبيه بين العراة والنساء ليس من كل وجه بل في الانفراد وقيام الإمام في الوسط وإلا فالعراة يصلون قعودا وهو أفضل والنساء قائمات كما في البحر.
=================
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (1/ 372)
(قوله وجماعة النساء) أي وكره جماعة النساء؛ لأنها لا تخلو عن ارتكاب محرم وهو قيام الإمام وسط الصف فيكره كالعراة كذا في الهداية وهو يدل على أنها كراهة تحريم؛ لأن التقدم واجب على الإمام للمواظبة من النبي – صلى الله عليه وسلم – عليه وترك الواجب موجب لكراهة التحريم المقتضية للإثم ويدل على كراهة التحريم في جماعة العراة بالأولی۔۔۔۔۔۔(قوله فإن فعلن تقف الإمام وسطهن كالعراة) لأن عائشة – رضي الله عنها – فعلت كذلك وحمل فعلها الجماعة على ابتداء الإسلام ولأن في التقدم زيادة الكشف وأراد بالتعبير بقوله تقف أنه واجب فلو تقدمت أثمت كما صرح به في فتح القدير والصلاة صحيحة فإذا توسطت لا تزول الكراهة وإنما أرشدوا إلى التوسط؛ لأنه أقل كراهية من التقدم كذا في السراج الوهاج، ولو تأخرت لم يصح الاقتداء بها عندنا لعدم شرطه وهو عدم التأخر عن المأموم.
=================
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 304)
“و” كره جماعة “النساء” بواحدة منهن ولا يحضرن الجماعات لما فيه من الفتنة والمخالفة “فإن فعلن” يجب أن “يقف الإمام وسطهن” مع تقدم عقبها.
=================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی

اپنا تبصرہ بھیجیں