بہشتی زیورکےایک مسئلہ پراعتراض اور اسکاجواب قربانی کانصاب کیاہے

فتویٰ نمبر:380

سوال:جناب مفتی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

   (۱)قربانی کےمتعلق مسئلہ یہ لکھاجاتاہےکہ جس کےپاس  ساڑھےسات تولہ سوناہو یا۵۲تولہ چاندی ہویاسوناچاندی دونوں تھوڑاتھوڑاہواوروہ ۵۲تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائےتوایسےشخص پرزکوٰۃ اورقربانی واجب ہے،لیکن بہشتی زیورمیں یہ مسئلہ لکھاہواہےکہ جس پرصدقہ فطرواجب ہےاس پرقربانی واجب ہےحالانکہ صدقہ فطرتوہرشخص پرواجب ہےجوعید کی صبح تک زندہ ہواورصدقہ فطر واجب ہونےکیلئےقربانی اورزکوٰۃ کانصاب جوذکر کیاجاتاہےاس کاہوناتوضروری نہیں توپھرقربانی کے مسئلہ میں یہ کیوں ذکرکیاگیاہےکہ جس پر صدقہ فطرواجب ہواس پرقربانی واجب ہےبرائےمہربانی اس مسئلہ کی وضاحت کریں ؟

(۲) استاد صاحب قربانی کانصاب اکثرکتب میں یہی لکھاہواہےکہ جس کےپاس اگر صرف سوناہے اورچاندی اورپیسےکچھ نہیں ہیں توساڑھےسات تولہ سوناہوناضروری ہےجب سات تولہ سوناہوگا تب اس پرقربانی واجب ہوگی اوراسی طرح صرف اگرچاندی ہواورسونا اورپیسےنہ ہوتوساڑھےباون تولہ  چاندی ہونا ضروری ہےاور اگرسوناچاندی دونوں تھوڑاتھوڑا ہےیاچاندی اورکچھ پیسےتوجب سونااورچاندی یاسونااور پیسےکی قیمت  باون تولہ چاندی تک پہنچ جائےیعنی ساڑھےباون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائےتواس پر قربانی واجب ہے،لیکن اکثرعورتیں جب دوسری عورتوں کومسائل بتاتی ہیں کہ جس کےپاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت ہوتواس پرقربانی واجب ہےجس سےبہت سی خواتین  پریشان ہوتی ہیں کہ ہمارےپاس ایک تولہ سوناہےاسکی قیمت توساڑھےباون تولہ چاندی تک پہنچ جاتی ہےتواس طرح ہم پربھی قربانی واجب ہےحالانکہ ان کےپاس صرف ایک تولہ سوناہےاس کےعلاوہ چاندی اورپیسےکچھ نہیں ہے،برائےمہربانی اس مسئلہ کی وضاحت کردیجئے تاکہ ان کی پریشانی دور ہوجائے ؟

 

الجواب حامدا   ومصلیا

  نصابِ قربانی سےمتعلق سوال ِ اوّل میں سائلہ نےجومسئلہ  ذکرکیاہےاوربہشتی زیور کی عبارت سےجواشکال پیش کیاہےوہ سائلہ کی غلط فہمی کانتیجہ ہے۔

  اصل مسئلہ تواس طرح ہےکہ قربانی ہراس مسلمان عاقل وبالغ مقیم شخص پرواجب ہےجس کی  ملکیت میں فقط ساڑھےسات تولہ سونایاساڑھےباون تولہ چاندی یا اس کےمساوی رقم کی مالیت کا غیرضروری مال واسباب کسی بھی شکل میں ۱۰ذوالحجہ  کی   صبح صادق  سے۱۲ ذوالحجہ کےغروب ِآفتاب سےپہلےپہلےتک آجائے۔(۱)

            صدقۃ الفطرکابھی بعینہٖ یہی نصاب انہیں شرائط کےساتھ ہے بجزاس کےکہ صدقۃ الفطرکیلئےیہ تمام شرائط  یکم شوّال کی صبح صادق کےوقت ہونی  ضروری ہیں ،صبح صادق کےبعد ملکیت نصاب یاعقل  بلوغ اسلام   جوصبح صادق سےپہلےپہلےتک نہ ہوموجبِ صدقۃالفطر نہیں ہےجس طرح ۱۲ ذوالحجہ  کےبعدیہ امورموجب ِقربانی نہیں ہیں ،صدقۃ الفطرمیں ملکیت ِ نصاب پرسال گذرنااورمال کانامی ہونایعنی مال ِ تجارت ہوناضروری نہیں ہےبلکہ اگراموال ِ غیر ضروریہ ہےاوربقدرنصاب ہیں توبھی ان میں صدقۃ  الفطرواجب ہوگا،بعینہٖ یہی حکم قربانی کا بھی ہےجبکہ زکوٰۃ کی فرضیت کیلئےملکیت نصاب پرسال گذرنااورمال کاسال نامی ہونابھی ضروری ہےاورمسافرہونازکوٰۃ  کی فرضیت سےمانع نہیں ہےجبکہ صدقۃ الفطراورقربانی میں مانع ہے۔

جیساکہ فتاوٰی عالمگیری(1/191) میں ہے:

وَهِيَ وَاجِبَةٌ عَلَى الْحُرِّ الْمُسْلِمِ الْمَالِكِ لِمِقْدَارِ النِّصَابِ فَاضِلًا عَنْ حَوَائِجِهِ الْأَصْلِيَّةِ كَذَا فِي الِاخْتِيَارِ شَرْحِ الْمُخْتَارِ، وَلَا يُعْتَبَرُ فِيهِ وَصْفُ النَّمَاءِ وَيَتَعَلَّقُ بِهَذَا النِّصَابِ وُجُوبُ الْأُضْحِيَّةِ، وَوُجُوبُ نَفَقَةِ الْأَقَارِبِ هَكَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ…. وَوَقْتُ الْوُجُوبِ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ الثَّانِي مِنْ يَوْمِ الْفِطْرِ فَمَنْ مَاتَ قَبْلَ ذَلِكَ لَمْ تَجِبْ

عَلَيْهِ الصَّدَقَةُ، وَمَنْ وُلِدَ أَوْ أَسْلَمَ قَبْلَهُ وَجَبَتْ وَمَنْ وُلِدَ أَوْ أَسْلَمَ بَعْدَهُ لَمْ تَجِبْ، وَكَذَا الْفَقِيرُ إذَا أَيْسَرَ قَبْلَهُ تَجِبُ، وَلَوْ افْتَقَرَ الْغَنِيُّ قَبْلَهُ لَمْ تَجِبْ كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ، وَمَنْ مَاتَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فَهِيَ وَاجِبَةٌ عَلَيْهِ، وَكَذَا إذَا افْتَقَرَ بَعْدَ يَوْمِ الْفِطْرِ كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ.

الفتاوى الهندية – (5 / 292)

(وَأَمَّا) (شَرَائِطُ الْوُجُوبِ) : مِنْهَا الْيَسَارُ وَهُوَ مَا يَتَعَلَّقُ بِهِ وُجُوبِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ دُونَ مَا يَتَعَلَّقُ بِهِ وُجُوبُ الزَّكَاةِ، وَأَمَّا الْبُلُوغُ وَالْعَقْلُ فَلَيْسَا بِشَرْطٍ……… وَمِنْهَا الْإِسْلَامُ فَلَا تَجِبُ عَلَى الْكَافِرِ وَلَا يُشْتَرَطُ الْإِسْلَامُ فِي جَمِيعِ الْوَقْتِ مِنْ أَوَّلِهِ إلَى آخِرِهِ حَتَّى لَوْ كَانَ كَافِرًا فِي أَوَّلِ الْوَقْتِ، ثُمَّ أَسْلَمَ فِي آخِرِهِ تَجِبُ عَلَيْهِ؛ لِأَنَّ وَقْتَ الْوُجُوبِ مُنْفَصِلٌ عَنْ أَدَاءِ الْوَاجِبِ فَيَكْفِي فِي وُجُوبِهَا بَقَاءُ جُزْءٍ مِنْ الْوَقْتِ،

            بہشتی زیورمیں جویہ مسئلہ لکھاہواسائلہ نےنقل کیاہےکہ جس پرصدقۃ الفطرواجب ہےاس پرقربانی واجب ہے،یہ مسئلہ اسی طرح ہےاورصحیح ہے،لیکن صدقۃ الفطرجس پر واجب ہےاس کی وضاحت کیلئےبہشتی زیورکےصدقۃ الفطرکےبیان کودیکھاجائےتووہی مسئلہ معلوم ہوگاجوسطورِبالا بیان ہوااورسائلہ کااپناخلجان بھی رفع ہوگا۔

چنانچہ حکیم الامت تھانوی قدس سرّہ بہشتی زیورصفحہ ۱۶۲جلدسوم میں تحریرفرماتے ہیں!

جس پرصدقۃ الفطرواجب ہےاس پربقرعیدکےدنوں میں قربانی کرنابھی واجب ہےاوراگراتنامال نہ ہوجتنےکےہونے سےصدقۃ الفطرواجب ہوتاہےتواس پرقربانی واجب نہیں ہے لیکن پھربھی اگرکردیوےتوبہت ثواب پاوے۔

    اس عبارت سےتین صفحہ پہلےہی صفحہ ۱۵۹پرتحریرفرماتےہیں!

جومسلمان اتنامالدارہوکہ اس پرزکوٰۃ واجب ہویااس پرزکوٰۃ تو واجب نہیں لیکن ضروری اسباب سےزائداتنی قیمت کامال و

اسباب ہےجتنی قیمت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہےتواس پرعیدکے دن صدقہ دیناواجب ہےچاہےوہ سوداگری کامال ہویاسودا گری کانہ ہواورچاہےسال پوراگذرچکاہویانہ گذراہواوراس صدقہ کوشرع میں صدقہ  فطرکہتےہیں ۔

            الغرض زکوٰۃ اورقربانی کےنصاب میں اورشرائط میں فرق وامتیازمسلّم ہے،نصاب ِ قربانی ونصاب ِ صدقۃ الفطرمیں مماثلت وعینیت بھی مسلّم ہےلیکن سائلہ نےجوصدقۃ الفطر کےعلی الاطلاق وجوب کاقول سنا سنایانقل کیاہےوہ تسلیم نہیں ہےبلکہ سائلہ کاذکرکردہ مسئلہ غلط ہے،لہذاقربانی یاصدقۃ الفطرہرنفس پرواجب نہیں ہےبلکہ اس کیلئےبھی بچند شرائط ملکیت ِنصاب ہوناضروری  ہے  ۔

(۲)      اس سوال کاجواب سابقہ سطورسےاخذکیاجاسکتاہےتاہم مزید وضاحت کےساتھ کچھ ضروری امورسےآگاہی  کیلئےدرج ذیل سطورتحریرکی جاتی ہیں:

 اوّلاًتویہ بات واضح رہےکہ ساڑھےسات تولہ سونااورساڑھےباون تولہ چاندی زکوٰۃ کی فرضیت کابھی نصاب ہےاورصدقۃ الفطراورقربانی کےوجوب کابھی البتہ فرضیت ِ زکوٰۃ کیلئےاس نصاب کی شرائط اورہیں اوروجوب صدقۃ الفطروقربانی کیلئےاس کی شرائط اورہیں ۔

            دوم یہ کہ ساڑھےسات تولہ سوناقربانی کیلئےاس شخص کےحق میں نصاب ہےجس کی ملکیت  میں بجز سونےکےنقدرقم بھی نہ ہو،چاندی بھی بالکل نہ ہواورغیرضروری اسباب بھی نہ ہوں اگرکسی کے پاس واقعۃ ً ان اشیاء میں سےکوئی چیزنہ ہوبلکہ صرف سوناہی ہوتواس کےحق میں سونےکانصاب ہی وجوب ِقربانی  کیلئےمعتبرہوگاکہ اگرسوناساڑھےسات تولہ  سےکم ہےتو ایسےشخص پرقربانی واجب نہیں ہےخواہ اس کی قیمت کچھ ہی ہو۔

یہی حکم چاندی کاہےکہ اگرکسی شخص کےپاس صرف چاندی ہی ہواوراس چاندی کے علاوہ اس کی ملکیت میں نہ سوناہو،نہ نقدرقم ہواورنہ ہی غیرضروری اموال ہوں تواس شخص کےحق میں ساڑھےباون تولہ چاندی ہی قربانی کانصاب ہوگاکہ اگرساڑھےباون تولہ چاندی ہےتواس شخص پرقربانی واجب ہےاگراس سےکم ہےتوواجب نہیں ہے۔

البتہ اگرکسی کی ملکیت میں کوئی سی دوجنس ہوں یعنی سونابھی ہواورچاندی بھی یا سونےیاچاندی کےساتھ نقدرقم بھی ہویاسونےیاچاندی کےساتھ غیرضروری اموال واسباب بھی ہویاچاروں قسم کی چیزیں ہوں توپھرنصاب کااعتبارساڑھےباون تولہ چاندی کی قیمت سے ہوگا،(۲)سونےاورچاندی کاالگ الگ حساب نہ ہوگا۔

درمختار(2/303)میں ہے:

 ( وقيمة العرض ) للتجارة ( تضم إلى الثمنين ) لأن الكل للتجارة وضعا وجعلا ( و ) يضم ( الذهب إلى الفضة ) وعكسه بجامع الثمنية ( قيمة ) وقالا بالإجزا

لہذااگرکسی مرد یاعورت کےپاس صرف ایک تولہ سوناہےیعنی ساڑھےسات تولہ سونےسےکم کم ہےاوراس کےعلاوہ اسکی ملکیت میں کسی اورجنس کی کوئی چیزنہیں ہےتوشرعاً اس            شخص پرقربانی واجب نہیں ہے،لیکن اگراس ایک تولہ سونےکےساتھ  چاندی یانقدرقم یا اموال غیرضروریہ ہوں توپھراس پرقربانی واجب ہوگی اگران کی مجموعی مالیت ساڑھےباون تولہ چاندی کےمساوی ہوجائے

التخريج

(۱)حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح – (1 / 348)

قوله ( من تجب عليه ) وهو الحر المسلم المالك للنصاب ولو غير تام…….. قوله ( ووقت الوجوب ) هو طلوع الفجر من يوم الفطر

مراقي الفلاح – (1 / 269)

تجب على حر مسلم مكلف مالك لنصاب أو قيمته وإن لم يحل عليه الحول عند طلوع فجر يوم الفطر ولم يكن للتجارة فارغ عن الدين وحاجته الأصلية وحوائج عياله والمعتبر فيها الكفاية لا التقدير وهي مسكنه وأثاثه وثيابه وفرسه وسلاحه وعبيده للخدمة فيخرجها عن نفسه وأولاده الصغار الفقراء وإن كانوا أغنياء يخرجها من مالهم……… ووقت الوجوب عند طلوع فجر يوم الفطر فمن مات أو افتقر قبله أو أسلم أو اغتنى أو ولد بعده لا تلزمه . ويستحب إخراجها قبل الخروج إلى المصلى وصح لو قدم أو أخر والتأخير مكروه ويدفع كل شخص فطرته لفقير واحد .

الجوهرة النيرة-أبو بكر بن علي بن محمد الحدادي – (2 / 2)

قَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ ( صَدَقَةُ الْفِطْرِ وَاجِبَةٌ ) أَيْ عَمَلًا لَا اعْتِقَادًا…… ( قَوْلُهُ عَلَى الْحُرِّ الْمُسْلِمِ ) احْتِرَازًا عَنْ الْعَبْدِ وَالْكَافِرِ أَمَّا الْعَبْدُ فَلَا تَجِبُ عَلَيْهِ بَلْ عَلَى سَيِّدِهِ لِأَجْلِهِ وَأَمَّا الْكَافِرُ فَلِأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ الْعِبَادَةِ وَإِنَّمَا لَمْ يُشْتَرَطْ الْبُلُوغُ وَالْعَقْلُ لِأَنَّهُمَا لَيْسَا بِشَرْطٍ عِنْدَهُمَا خِلَافًا لِمُحَمَّدٍ حَتَّى أَنَّ عِنْدَهُمَا تَجِبُ عَلَى الصَّبِيِّ وَالْمَجْنُونِ إذَا كَانَ لَهُمَا مَالٌ وَعِنْدَ مُحَمَّدٍ لَا تَجِبُ عَلَيْهِمَا ثُمَّ أَنَّهُ يَحْتَاجُ إلَى مَعْرِفَةِ أَحَدَ عَشَرَ شَيْئًا سَبَبُهَا وَهِيَ رَأْسٌ يَمُونُهُ وَيَلِي عَلَيْهِ وَصِفَتُهَا وَهِيَ وَاجِبَةٌ ثَبَتَ وُجُوبُهَا بِالْأَحَادِيثِ الْمَشْهُورَةِ وَهُوَ قَوْلُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ { أَدُّوا عَنْ كُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ } وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ { فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ عَلَى الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالْحُرِّ وَالْعَبْدِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ } وَشَرْطُهَا وَهِيَ فِي الْإِنْسَانِ الْحُرِّيَّةُ وَالْإِسْلَامُ وَالْغِنَى وَفِي الْوَقْتِ طُلُوعُ الْفَجْرِ مِنْ يَوْمِ الْفِطْرِ وَفِي الْوَاجِبِ أَنْ لَا تَنْقُصَ مِنْ نِصْفِ صَاعٍ وَرُكْنُهَا وَهُوَ أَدَاءُ قَدْرِ الْوَاجِبِ إلَى مَنْ يَسْتَحِقُّهُ وَحُكْمُهَا وَهُوَ الْخُرُوجُ عَنْ عُهْدَةِ الْوَاجِبِ فِي الدُّنْيَا وَنَيْلُ الثَّوَابِ فِي الْآخِرَةِ وَمَنْ تَجِبُ عَلَيْهِ وَهُوَ الْحُرُّ الْمُسْلِمُ الْغَنِيُّ وَقَدْرُ الْوَاجِبِ وَهُوَ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ أَوْ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ أَوْ تَمْرٍ وَمِمَّا يَتَأَدَّى بِهِ الْوَاجِبُ وَهُوَ مِنْ أَرْبَعَةٍ الْحِنْطَةُ وَالشَّعِيرُ وَالتَّمْرُ وَالزَّبِيبُ وَوَقْتُ الْوُجُوبِ وَهُوَ طُلُوعُ الْفَجْرِ مِنْ يَوْمِ الْفِطْرِ وَوَقْتُ الِاسْتِحْبَابِ وَهُوَ قَبْلَ الْخُرُوجِ إلَى الْمُصَلَّى وَمَكَانُ الْأَدَاءِ وَهُوَ مَكَانُ مَنْ تَجِبُ عَلَيْهِ لِإِمْكَانِ مَنْ وَجَبَتْ عَلَيْهِ لِأَجْلِهِمْ مِنْ الْأَوْلَادِ وَالْعَبِيد

(۲)عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية-لإمام محمد عبد الحي اللكنوي – (3 / 197)

(ويُضَمُّ الذَّهبُ إلى الفضَّةِ، والعروضُ إليهما بالقيمة): هذا عند أبي حنيفة  رضي الله عنه، وأمَّا عندهما فيضمُّ الذَّهب إلى الفضَّةِ بالأجزاء حتَّى إذا كان له عشرةُ دنانير وتسعونُ درهماً قيمتُها عشرةُ دنانير تجبُ عنده لا عندهما.

النهر الفائق شرح كنز الدقائق – (1 / 442)

(و) يضم (الذهب إلى الفضة) والفضة إلى الذهب للمجانسة بجامع الثمينة (قيمة) أي: من حيث القيمة عند الإمام وقالا: من حيث الأجزاء بأن يعتبر تكميل أجزاء النصاب من نحو الربع والنصف لأن المعتبر فيها القدر دون القيمة حتى لا يحب في مصوغ وزنه أقل من مائتي وقيمته فوقها وله أن الضم للمجانسة وهي تحقق باعتبار القيمة دون الصورة وأثر الخلاف يظهر فيمن له مائة وخمسة مثاقيل قيمتها مائة كان عليه الزكاة عنده خلافاً لهما لأن الحاصل ثلاثة أرباع نصاب،

اپنا تبصرہ بھیجیں