حضرت ادریس علیہ السلام

آپ ان پیغمبروں میں سے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے دوجگہ قرآن پاک میں نام لیاہے ۔ 

فرمان باری تعالیٰ ہے :

1۔وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ ۡ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا 5

وَّرَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا 57؁ ( سورہ مریم )

ترجمہ: اور اس کتاب میں ادریس کا بھی تذکرہ کرو  بےشک وہ سچائی کے عادی نبی تھے۔اور ہم نے انہیں رفعت دے کر ایک بلند مقام تک پہنچا دیا تھا۔

2۔ {وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِنَ الصَّابِرِينَ (85) وَأَدْخَلْنَاهُمْ فِي رَحْمَتِنَا إِنَّهُمْ مِنَ الصَّالِحِينَ (86)} [الأنبياء: 85، 86]

ترجمہ: اور اسماعیل، ادریس اور ذوالکفل کابھی تذکرہ کیجیے کہ یہ سبھی صبرواستقامت کے پیکر تھے، ان کو ہم نے اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیا ؛کیونکہ یہ بہت نیک تھے۔

حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں مستند مآخذ سے بس اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ بلند پایے کے پیغمبر تھے ۔ اہل علم کی اکثریت کے نزدیک آپ کو اللہ تعالی نے آسمانوں پر اٹھالیاتھا ۔ورفعناہ مکانا علیا کے ظاہری الفاظ سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔جبکہ کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ بلند مقام تک پہنچانے کا مطلب ان کے کارناموں کی وجہ سے دنیا میں ان کو شہرت اور# عزت کا بلندمقام ملنا ہے؛کیونکہ آپ کی طرف کئی علوم وفنون، مثلا: علم رمل، علم جفر، حساب، کتابت، درزی کا کام، شہر اور بستیاں بسانا، ہتھیار بنانا وغیرہ منسوب ہیں۔

آپ  حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے دنیا میں آئے یا بعد میں؟ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے۔بعض انہیں حضرت نوح علیہ السلام کا جدامجد کہتے ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ ان کا زمانہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد کا ہےجبکہ ایک قول یہ بھی ملتا ہے کہ آپ اور حضرت الیاس ایک ہی شخصیت ہیں۔

ذیل میں حضرت ادریس علیہ السلام کے حوالے سے مزید تفصیلات ذکر کی جارہی ہیں،جو زیادہ تر اسرائیلی روایات سے لی گئی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

خاندان اور نسب:

آپ، حضرت شیث کے بیٹے  انوش کی نسل میں سے ہیں۔آپ کے والد کا نام یارد اور والدہ کا نام برکانہ تھا۔آپ کی بیوی کا نام معادنہ تھا۔آپ کا ایک بیٹا بھی تھا جس کا نام متوشالخ تھا ۔حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام کے پردادا بھی ہیں۔

آپ کا نسب یہ ہے:

” ادریس [ حنوک ] بن یارد بن مہلل ایل بن قینان بن انوس بن شیث(ع) بن آدم(علیہ السلام)۔ “

آپ کی ولادت عراق کے شہر بابل میں ہوئی۔

ادریس نام کی وجہ:

آپ کا اصل نام اخنوح یا حنوک تھا آپ کا لقب ادریس ہے آپ کو یہ لقب اس لیے ملا کیونکہ دنیا میں آپ نے سب سے پہلے لوگوں کو لکھنے پڑھنے کا درس دیا اسی بنا پر لوگ آپ کوادریس یعنی درس دینے والا کہہ کر پکارنے لگے۔

حلیہ:

چند بزرگان دین نے آپ کا حلیہ بیان کیا ہے وہ درج ہے:

1. عمدہ اوصاف۔

2. پورا قد و قامت۔

3. خوبصورت۔

4. خوبرو۔

5. گھنی داڑھی۔

6. چوڑے کندھے۔

7. مضبوط ہڈیاں۔

8. دبلے پتلے۔

9. سنجیدہ۔

10. سرمگی چمکدار آنکھیں۔

11. گفتگو باوقار۔

12. خاموشی پسند۔

13. رستہ چلتے ہوۓ نظر نیچے۔

14. غصے میں غضب ناک

15. بات کرتے ہوۓ شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کے عادی۔

ظاہر ہے یہ تفصیلات کسی مستند ذریعے سے ثابت نہیں، جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔

بعثت کی وجہ :

آپ کے دور میں انسان جہالت اور بے ادبی میں اتنے گرگئےتھے کہ اللہ کو چھوڑ کر آگ کی عبادت کرنے لگے تھے۔زنا عام ہوگیا تھا۔ ایک اسرائیلی روایت ہے کہ جب قابیل نےاپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا تواس کے بعد وہ اپنی بیوی کو لے کر وہاں سے چلاگیا ۔ اور ” سہول ” کے علاقے میں آبادہوا۔جبکہ ہابیل کی اولادیں”جبال ” میں آباد ہوئیں ۔قابیل کے قبیلے کی عورتیں انتہائی خوب صورت تھی جبکہ ہابیل کے لوگوں کے مرد خوب صورت تھے ۔ شیطان نے چال چلی اور قابیل کی عورتوں اور ہابیل کے مردوں کو اپنی گانا گانے کی دعوت میں ایک جگہ اکٹھا کیا اور اس طرح عریانی عام ہونے لگی اور زنا کا دروازہ کھل گیا۔ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس ؑ کو مبعوث فرمایا ۔ آپ حضرت آدم کے 500 سال بعد اس دنیا میں تشریف لائے۔ 

تبصرہ: 

دائرۃ المعارف الاسلامیہ جو ایک معتبر مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے، کی تحقیق کے مطابق ہابیل کی کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ حضرت شیث علیہ السلام کے تذکرے میں کل بیان ہوا۔اس لیے اس روایت کی یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کہ ہابیل کی اولاد جبال نامی جگہ میں آباد ہوئیں۔

جہاد کا حکم :

حضرت ادریس ؑ نے جب دیکھا کہ مشرکین ایمان والوں پر ظلم وزیادتی کررہے ہیں اور منع کرنے کے باوجود یہ لوگ شرک ومعاصی سے باز نہیں آرہے تو انہوں نے اپنےپیروکاروں کو جہادکا حکم دیا۔حضرت ادریس ؑ وہ پہلے رسول ہیں جنہوں نے اللہ کے حکم سے سب سے پہلے قابیل کے خلاف جہاد کیا اور غنیمتیں حاصل کیں مگر یہ ان کے لیے حلال نہیں تھیں ۔ رسول اللہ ﷺ پہلے رسول ہیں جن کے لیے غنیمتیں حلال کی گئی ۔ لیکن یہ بات یقینی ہے

کہ جہاد سب سے پہلے حضرت ادریس ؑ نے کیا۔

ایک روایت میں مزید تفصیلات ملتی ہیں کہ آپ نے دنیا میں آکر لوگوں کو ہدایت کا رستہ دکھایا ۔ ادب و علم سکھایا لیکن آپ کی قوم نے آپ کی ایک نہ سنی اور صرف کچھ ہی لوگ آپ پر ایمان لا‌ئے۔ اس پر آپ نہایت دل برداشتہ ہوکر خود اور جو ایمان لائےانہیں لےکر وہاں سے ہجرت کر گئے پھر آپ کے ساتھیوں میں سے چند نے آپ سے سوال کیا: اے اللہ کے نبی ادریس! اگر ہم نےبابل کو چھوڑ دیا تو ہمیں ایسی جگہ کہاں ملے گی؟ ادریس(ع) نے فرمایا: اگر ہم اللہ سے اُمید رکھیں تو وہ ہمیں سب کچھ عطا کرے گا۔آخرکار آپ مصر پہنچے (اس دور میں مصر ایک خوبصورت جگہ تھی ) آپ نے وہاں پہنچتے ہی اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سبحان اللہ! کہا اور آپ وہیں رہنے لگے اور وہاں اپنا علم پھیلایا آپ وہ پہلے انسان تھے جس نے قلم کے ذریعے لکھا اور لوگوں کو بھی سکھایا ۔اس کے بعد آپ نے ان لوگوں کے ساتھ مل کر جو ایمان لےآئے تھےبابل میں برائی اور برے لوگوں کے ساتھ جنگ کی اور فتح یاب ہوئےاور دنیا سے ایک دفعہ برائی کا نام و نشان مٹا دیا۔(یادرہے یہ سب تفصیلات معتبر روایات میں نہیں ملتیں۔)

وفا ت:

آپ کی وفات سے کچھ دیر پہلے اللہ نے آپ سے فرمایا کہ اب سے آپ جتنی دیر زندہ رہیں گے دنیا میں جتنے انسان بھی کوئی نیکی کریں گے ان کا آدھا ثواب آپ کو جائے گا اس پر آپ بےحد خوش ہوئے۔ اتنے میں ایک فرشتے نے آپ کو آکر خبر دی کہ عزرائیل آپ کی روح قبض کرنے آرہے ہیں جس پر اپ حیران ہوگئےاور اس فرشتے کے پروں پر بیٹھ کر اللہ سے ملنے چل پڑے ۔آپ نے پہلا ، دوسرا اور تیسرا آسمان پار کر لیا اور جب چوتھے آسمان پر پہنچے تو وہاں آپ کو عزرائیل ملے۔ آپ نے اللہ سے اور زندگی مانگی جس پر اللہ نے نہ کہا پھر اپ اتنی زندگی پر ہی راضی ہوگئے اور پھر عزرائیل نے آپ سے آپ کی روح قبض کرنے کی اجازت لی ادریس(علیہ السلام) نے عزرائیل کو اجازت نہ دیتے ہوۓ اللہ سے دعا کی کہ اپ کی روح عزرائیل کی بجاۓ اللہ خود قبض کرے پھر اللہ نے خود ادریس(ع) کی روح قبض کی اور آپ کی خواہش پوری کی۔ آپ نے 365 سال کی عمر پائی۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک فرشتے نے اللہ تعالیٰ سے حضرت ادریس ؑ سے ملاقات کی اجازت چاہی ،اجازت مل گئی تو وہ حضرت ادریس ؑ کے پاس آیا ۔ادریسؑ نے اس سے دریافت کیا: ” ملک الموت سے آپ کی کچھ دوستی ہے ؟ فرشتے نے جواب دیا: ” ہاں ‘ وہ فرشتوں میں میں میرے بھائی کی طرح ہیں ۔ ادریسؑ نے کہا: ” ملک الموت سے مجھے کچھ نفع پہنچادیں اور میری موت میں تاخیر کریں ۔فرشتے نے کہا : ” آپ ؑ میرے پروں کے درمیان سوار ہوجائیں “فرشتہ انہیں چوتھے آسمان پر لے گیا وہاں ملک الموت سے ملاقات ہوئی ۔جوزمین پر اتر رہا تھا ۔دوست فرشتے نے موت کے فرشتےسے ادریس ؑ کے بارے میں گفتگو کی ۔ موت کے فرشتے نے دریافت کیا: ادریس ؑکہاں ہیں؟ فرشتے نے کہا: “میری پشت پر ” ملک الموت نے کہا: ” واہ! تعجب ہے ۔اللہ کی طرف سے یہ حکم ملا ہے چوتھے آسما ن پرا دریسؑ کی روح قبض کرو،ا س لیے میں سخت حیران تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ادریسؑ تو زمین پر ہیں۔ پھر ملک الموت نے وہیں ان کی روح قبض کرلی۔ ( بحوالہ ابن بن حاتم ) 

اس طرح حضرت ادریس ؑ کی روح چوتھے آسمان پر قبض کی گئی ۔انہیں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح آسمان پراٹھایاگیا فرق صرف یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی روح قبض نہیں کی گئی وہ قیامت سے قبل دنیا میں واپس آئیں گے اور فتنوں کا خاتمہ کریں گے ۔

تبصرہ:

یہ تمام روایات ، اسرائیلیات میں سے ہیں ۔قرآن کریم سے ان کا آسمانوں پر جانا تو ثابت ہے لیکن اس کا کیا واقعہ ہوا تھا یا اس کی جزئیات کیا ہیں؟ اس کا ذکر کسی معتبر روایت میں نہیں ہے۔

حضرت ادریس علیہ السلام کی #اولیات:

جو کام دنیا میں کسی نے سب سےپہلے شروع کیے،وہ اس کی اولیات ہیں ۔حضرت ادریس ؑ کی اولیات میں سے کچھ یہ ہیں:

1) علم ِنجوم : یعنی ستاروں کا علم اللہ نے آپ کو عطافرمایا۔

2) علم ِحساب : اللہ نے آپ کو علم حساب کا ماہر بنادیا۔

3) علم رمل :ریت پر لکیریں کھینچ کر مستقبل کے حالات وواقعات معلوم کرنا، یہ علم بھی آپ کو دیا گیا۔

4) سب سے پہلے اسلحہ آپ ؑ نے بنوایا۔

5) سب سے پہلےآپ ؑ نے کپڑاسیااور باقاعدہ لباس ایجاد کیا۔

6) سب سے پہلے قلم سے آپ نے لکھا اور لکھنا سکھایا۔

7) سب سے پہلے آپ نے جہاد کیا۔

8) شہر اور بستیاں بسانے کا طریقہ بتایا۔

9) کہاجاتا ہے کہ آپ 72بہتر زبانیں جانتے تھے۔(لیکن اس بات پر یقین کرنا اس لیے مشکل ہے کہ اس وقت دنیا میں اتنی زبانیں نہیں ہوئی ہوں گی ؛کیونکہ ابھی دنیا کی شروعات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ممکن ہے یہ بات کسی اور پیغمبر کے حوالے سے ہو جو کسی نے یہاں ذکر کردی ہو،یا پھر یہ کہ حضرت ادریس علیہ السلام کا زمانہ کافی بعد میں تسلیم کیا جائے!

10) طب،علم ہیئت اور علم نقاشی کا بانی بھی آپ ہی کو کہا گیا ہے۔

دائرۃ المعارف کی تحقیق:

دائرۃالمعارف الاسلامیہ میں لکھا ہے:

” مسلم اہل تصنیف میں #جمال الدین بن القفلی نے حضرت ادریسؑ کے نام اور حالات پر خاص توجہ کی اور اپنی کتاب اخبار الحکماء ( طبع Lippert لائپرنگ 1320ھ 1903ھ’ ترجمہ اردو از غلام جیلانی# برق ) کا آغاز انہیں کے تذکرے سے کیا ہے ۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ وہ اہل التواریخ و القصص واہل التفسیر کےا قوال بیان کرے گا۔ ان حکما کے نام یا کتابوں کا اس نے حوالہ نہیں دیا۔ مگر بظاہر حکمائے یونان قدیم مراد ہیں جن سے وہ بالواسطہ اور ممکن ہے بلاواسطہ استفادہ کرتا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ قرآن مجید میں حضرت ادریسؑ اسے موسوم کیاگیا ہے جو عبرانیوں میں “خنوخ ” اوراس کا معرب “اخنوخ” ہے ۔ یہ بزرگ مصر قدیم کے دارالحکومت میں ہوئے اور یا عراق کے شہر بابل سے نقل وطن کر کے مصر میں آبسے تھے۔ا صل نام ہرمس الہوامہ ‘ نیز اور ین یا لورین تھا ( دیکھیے Wensinck درآآلائیڈن ‘بذیل مادہ ادریس ) ۔ وہ بہتر زبانیں جانتے تھے ۔ انہوں نے بہت سے شہر آباد کرائے ۔ ان کی شریعت دنیامیں پھیل گئی ۔ اسی شریعت کو فرقہ صابئین “التیمہ ” کے نام سے موسوم کرتا ہے ۔ اس ادریسی دین کا قبلہ خط نصف النہار کے ٹھیک جنوب کی طرف تھا۔ا س کی عیدیں اور قربانیاں ستاروں کے عروج ورجوع کےا وقات کے مطابق مقرر کی گئی تھیں اور سورج کے مختلف بروج میں داخلے کے وقت منائی جاتی تھیں۔ ( کتاب مذکور ‘ ص 4 بعد ترجمہ، ص 22) ۔ حضرت ادریس علیہ السلام توحیدوآخرت ‘ خدا کی عبادات ( صوم و صلوٰۃ ) اعمال صالحہ اوراخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے تھے ۔ ان کے مواعظ وحکم نقل کیے گئے ہیں ‘ نیز ان کے حلیے اور بعض لباسی جزئیات کا ذکر بھی ملتا ہے ۔ زیادہ اہم بات یہ لکھی ہے کہ زمین میں ان کی مدت قیام بیاسی سال تھی ( ص 5’س 15) ۔آخر میں عربی مصنفین کے حوالے سے انہیں حکمت ( طب ) ہیئت،نیز نقاشی کا بانی،سب سے پہلا کتابی درس دینے والا اور کپڑا سی کر پہننے والا بتایا ہے ۔ان پر تیس آسمانی صحیفے نازل ہوئے اور خدا نے انہیں اپنے پاس مکان بلند پر اٹھالیا۔”

(دائرۃ المعارف الاسلامیہ، اردو: ص84، مکتبہ جبرئیل)

(ترتیب وپیشکش:محمد انس عبدالرحیم)

اپنا تبصرہ بھیجیں