حضرت سلیمان علیہ السلام

 حضرت سلیمان ؑ حضرت داؤد علیہ السلام کے صاحبزادے  ہیں ان کا نسب یہودا سے حضرت یعقوب ؑ سے ہوتا ہوا حضرت ابراہیم  علیہ السلام  کی نسل سے ہے ۔

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿٨٤﴾

اور ہم نے ان کو اسحاق دیا اور یعقوب ہر ایک کو ہم نے ہدایت کی اور پہلے زمانہ میں ہم نے نوح کو ہدایت کی اور ان کی اوﻻد میں سے داؤد کو اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں( سورۃ الانعام)

وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَيْمَانَ ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ ﴿٣٠﴾

اور ہم نے داؤد کو سلیمان (نامی فرزند) عطا فرمایا، جو بڑا اچھا بنده تھا اور بے حد رجوع کرنے وا لاتھا ( سورۃ ص )

حضرت سلیمان  بن داؤد علیہ السلام  کاذکر کئی مقامات پر  آیا ہے ۔ چند  جگہ کچھ تفصیل کے ساتھ جبکہ اکثر  جگہ مختصر  طور پر   ان انعامات اور فضل وکرم کا ذکر  ہے جو ان پر  اور ان کے والد  حضرت داؤد ؑ پر نازل ہوتے رہے ۔

حضرت سلیمان   بن داؤد 990 ق م تا 932 قم سلسلہ اسرائیل میں ایک نامور  پیغمبر گزرے ہیں  ۔

قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام  کا ذکر کئی مقامات پر آیاہے ۔ چد جگہ  کچھ تفصیل  کے ساتھ جبکہ اکثر جگہ مختصر طور پر ان انعامات اور فضل وکرم کا ذکر ہے  جو ان پرا ور ان کے والد داؤد علیہ السلام  پر نازل ہوتے رہے ۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے معجزات  اور خوبیاں عطا فرمائی ۔

وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۭ اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ    16؀

 اور سلیمان کو داود کی وراثت ملی  اور انہوں نے کہا : اے لوگو ! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے،  اور ہمیں ہر (ضرورت کی) چیز عطا کی گئی ہے۔ یقینا یہ (اللہ تعالیٰ کا) کھلا ہوا فضل ہے۔

یہاں  وراثت سے مراد نبوت وسلطنت ہے اللہ نے انہیں ایسا بادشاہ بنایا کہ ساری دنیا میں ان جیسا بادشاہ نہیں ہوا۔

تسخیر  جن  :۔ حضرت سلیمان علیہ السلام   کی حکومت  کا ایک امتیاز یہ بھی  تھا کہ جن  ان کے تابع تھا وفرمانبردار  تھے  جن  حضرت سلیمان کے حکم سے بلند وبالا عمارتیں  تعمیر  کرتے ، دریا  میں غوطہ لگا کر اس میں سے ہیرے جوہرات  اور موتی وغیرہ  نکالتے۔ جو کام انسانوں کی طاقت  سے زیادہ ہوتے ہیں  وہ آپ ؑ جنوں سے لیا کرتے ۔ جو جن آپ ؑ کے حکم کے خلاف کرتےیا رکاوٹ  ڈالتے  آپ ؑ انہیں  زنجیروں  میں جکڑ  کر قید  کردیتے ،

هَذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ

یہ ہے ہمارا عطیہ اب تو احسان کر یا روک رکھ، کچھ حساب نہیں

 ( سورۃ ص آیت 39 )

اللہ نے ان پر  حضرت سلیمان علیہ السلام کو اختیار  دے دیا کہ  آپ ؑ کی مرضی کی سزا دیں یا  در گزر کریں ۔اللہ تعالیٰ سورہ سبا آیت  13 میں  فرماتے ہیں :

يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِن مَّحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِيَاتٍ ۚ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ﴿١٣

جو کچھ سلیمان چاہتے وه جنات تیار کردیتے مثلا قلعے اور مجسمے اور حوضوں کے برابر لگن اور چولہوں پر جمی ہوئی مضبوط دیگیں، اے آل داؤد اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو، میرے بندوں میں سے شکرگزار بندے کم ہی ہوتے ہیں.

  یعنی جنات  حضرت سلیمان علیہ السلام  کے حکم کے مطابق بڑے بڑے محل، عمارتیں  ، مساجد ، قلعے، مجسمے ، بڑے بڑے تھال اور اتنی بڑی دیگیں بناتے جو  نقل وحرکت کے قابل  نہ ہوتیں  یہ آپ ؑ پر اللہ کا عظیم احسان  تھا۔

 تسخیر ہوا :۔

 آپ علیہ السلام  کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی تھا کہ آپ کے لیے ہو امسخر کردی گئی تھی  

فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ ﴿٣٦﴾

پس ہم نے ہوا کو ان کے ماتحت کر دیا اور آپ کے حکم سے جہاں آپ چاہتے نرمی سے پہنچا دیا کرتی تھی۔

وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ ﴿٨١﴾

ہم نے تند وتیز ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کر دیا جو اس کے فرمان کے مطابق اس زمین کی طرف چلتی تھی جہاں ہم نے برکت دے رکھی تھی، اور ہم ہر چیز سے باخبر اور دانا ہیں۔ ( سورۃ الانبیاء )

وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ ﴿١٢﴾

اور ہم نے سلیمان کے لئے ہوا کو مسخر کردیا کہ صبح کی منزل اس کی مہینہ بھر کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ بہا دیا۔ اور اس کے رب کے حکم سے بعض جنات اس کی ماتحتی میں اس کے سامنے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو بھی ہمارے حکم سے سرتابی کرے ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا مزه چکھائیں گے ( سورۃ سبا )

  ہو ا کو تابع وفرمانبردار بنادیاآپ ؑ  ہو ا کو جس طرح کا حکم دیتے وہ حکم کی تعمیل کرتی اور آپ ؑ ایک ماہ کا سفر چند گھنٹوں میں طے کرلیتے ۔

تانبے کے چشمے :۔ حضرت سلیمان  علیہ السلام چونکہ عظیم الشان  عمارتوں کی تعمیر کے شوقین تھے اس لیے ضروری تھا کہ گارے اور چونے کے بجائے پگھلی  ہوئی دھات  استعمال کی جائے چنانچہ  اللہ تعالیٰ  نے حضرت سلیمان علیہ السلام  کی  اس مشکل کو اس طرح حل کیا کہ انہیں پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے  مرحمت فرمائے ۔

تانبے کے یہ چشمے  یمن میں تھے  جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام  پر ظاہر کردیا  ( البدایہ والنہایہ  جلد 2 ص 28)

وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ

اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ بہا دیا ( سورۃ سبا آیت 12)

چرند وپرند کی بولیوں  کا علم: اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام دونوں  کو یہ خصوصیت عطا فرمائی  کہ وہ چرند پرند کی  بولیاں سمجھ لیتے تھے  ۔

وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ ﴿١٦﴾

اور داؤد کے وارث سلیمان ہوئے اور کہنے لگے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہم سب کچھ میں سے دیئے گئے ہیں۔ بیشک یہ بالکل کھلا ہوا فضل الٰہی ہے۔

 حضرت سلیمان علیہ السلام اور جہاد کے گھوڑوں کا واقعہ :

آپ ؑ گھوڑوں کو بہت پسند  فرماتے آپ ؑ کےپاس  بہت سے گھوڑے تھے ۔

إِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِالْعَشِيِّ الصَّافِنَاتُ الْجِيَادُ ﴿٣١﴾ فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَن ذِكْرِ رَبِّي حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ ﴿٣٢﴾ رُدُّوهَا عَلَيَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ ﴿٣٣﴾

جب ان کے سامنے شام کے وقت تیز رو خاصے گھوڑے پیش کیے گئے.تو کہنے لگے میں نے اپنے پروردگار کی یاد پر ان گھوڑوں کی محبت کو ترجیح دی، یہاں تک کہ (آفتاب) چھﭗ گیا

ان (گھوڑوں) کو دوباره میرے سامنے ﻻؤ! پھر تو پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا ( سورۃ ص آیت نمبر 31 تا 33 )

  قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام  کے متعلق  اس مختصر واقعہ کی تفسیر یوں ہے   : حضرت سلیمان  علیہ السلام  کو ایک  مرتبہ جہاد کی مہم پیش  آئی انہوں نے  حکم دیاکہ  اصطبل سے گھوڑوں کو لایا جائے  گھوڑے پیش ہوئے تو ان کی دیکھ بھال میں عصر کی نماز کا وقت جاتا رہا اور سورج غروب ہوگیا۔ آپ ؑ کو احساس ہوا کہ مال کی محبت  یاد خدا میں غالب آگئی تو گھوڑوں کو واپس  بلایا اور یاد خدا  کی محبت میں ان سب کو ذبح کر ڈالا ۔

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  سے ان آیات کی تفسیر منقول ہے کہ جہاد  کی ایک مہم  کے موقع  پر حضرت سلیمان  علیہ السلام  نے جہاد کے گھوڑوں  کو  لانے کا حکم  دیا گھوڑے 20 ہزار  سے زائد تھے انہیں دیکھ کر آپ ؑ پرپرمسرت کیفیت طاری ہوگئی اور فرمانے لگے ان گھوڑوں سے میری یہ محبت میرے پروردگار  کے ذکر کا ایک طریقہ ہے کہ پھر گھوڑے  اصطبل کو روانہ کردیئے جب نظروں سے اوجھل ہوگئے تو واپس لانے کا حکم دیا۔جب وہ واپس لائے گئے  تو محبت   سے پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے ۔

حضرت سلیمان  علیہ السلام کی آزمائش :۔ امام بخاری ؒ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ” ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام  نے ارادہ کیا کہ  اس شب اپنی بیویوں کے ساتھ ازدواجی فریضہ ادا کروں گا اور ہر ایک  بیوی سے لڑکا پیدا ہوگا اور وہ  میدان  جہاد میں مجاہد بنے گا۔ اس ارادے کے ساتھ ان شاء اللہ  کہنا بھول گئے ۔اللہ تعالیٰ کو جلیل القدر   پیغمبر کا یہ عمل پسند نہ آیا چنانچہ  اللہ نے حضرت  سلیمان ؑ کے اس دعوت کو غلط ثابت کردیا اور تمام  بیویوں  میں سے صرف ایک  بیوی کے ہاں مردہ بچہ  پیدا ہو احضرت سلیمان ؑ کو جب احساس ہوا تو انھوں نے  توبہ کی اور انشاء اللہ  کہنے کو اپنا معمول  بنالیا ۔

وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَىٰ كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ ﴿٣٤﴾ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ﴿٣٥﴾

اور ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش کی اور ان کے تخت پر ایک جسم ڈال دیا پھر اس نے رجوع کیا

کہا کہ اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسا ملک عطا فرما جو میرے سوا کسی (شخص) کے ﻻئق نہ ہو، تو بڑا ہی دینے والاہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام  کی بیویوں کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا  ہے  کئی بزرگوں نے ہزار  بیویاں  بتائی ہیں سات سو مہر والی اور تین سو بغیر مہروں والی یعنی باندیاں ۔

 حضرت سلیمان  علیہ السلام  کے چند فیصلے  :۔

  سورۃ الانبیاء میں ہے :۔

وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ ﴿٧٨﴾ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ ﴿٧٩

اور داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو یاد کیجئے جبکہ وه کھیت کے معاملہ میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو اس میں چر چگ گئی تھیں، اور ان کے فیصلے میں ہم موجود تھے

ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا۔ ہاں ہر ایک کو ہم نے حکم وعلم دے رکھا تھا اور داؤد کے تابع ہم نے پہاڑ کر دیئے تھے جو تسبیح کرتے تھے اور پرند بھی۔ ہم کرنے والے ہی تھے ( 78/79)

 اس آیت میں ایک قصے کی طرف اشارہ ہوتا ہے ۔

دو ہمسائیوں میں جھگڑا ہوگیا ایک کے پاس کھیت  تھا جبکہ دوسرے  کے پاس بکریاں تھیں ۔ ایک رات بکریوں نے  سارے کھیت  کو نقصان پہنچایا  اور فصل خراب ہوگئی  دونوں  فریق اپنا مقدمہ لے کر  حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آئے ۔حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا کہ بکرے والے کی سستی کا نتیجہ ہے  لہذا کھیت والا بکریاں  اپنی تحویل  میں لے لے۔  جب یہ فریق  باہر نکلے  تو حضرت سلیمان  سے ملاقات  ہوئی آپ ؑ نے تفصیل سنی اور دونوں حضرت داؤدعلیہ السلام  کے پاس لے گئے اور فرمایا :اس مقدمے کا بہتر فیصلہ یہ ہے کہ بکریاں کھیت والے  کو دے  دیں اور کھیت  بکری والے کو جب  کھیت پہلی حالت  میں واپس آجائے تودونوں فریق اپنی چیزیں واپس لے لیں اسی دوران کھیت والا بکریوں کے دودھ  سے  فائدہ حاصل کرے ۔ حضرت داؤد علیہ السلام  کو یہ فیصلہ پسند آیا یہ فیصلہ اللہ نے حضرت  سلیمان علیہ السلام  کو سمجھایاتھا ۔

 بے مثال حکمرانی  : حضرت سلیمان  علیہ السلام  کا ایک واقعہ قرآن میں یوں  بیان  ہوتا ہے ۔

 وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴿١٧﴾ حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿١٨﴾

سلیمان کے سامنے ان کے تمام لشکر جنات اور انسان اور پرند میں سے جمع کیے گئے (ہر ہر قسم کی) الگ الگ درجہ بندی کردی گئیجب وه چینوٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں سلیمان اور اس کا لشکر تمہیں روند ڈالے ( سورۃ نمل آیت 17/ 18 )

حضرت سلیمان علیہ السلام   ایک مرتبہ  اپنے جن وانس اور پرندوں کے تمام  لشکروں کے ساتھ سفر کررہے تھے  کہ ایک وادی پر سے گزر ہوا سنا کہ ایک چیونٹی  دوسری چیونٹیوں سے کہہ رہی تھی : اے چیونٹوں : اپنے بلوں میں داخل ہوجاؤ کہیں حضرت سلیمان  علیہ السلام  نے چیونٹوں کی یہ بات سنی تو  مسکرادیے اور فرمایا :

  فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ﴿١٩﴾

اس کی اس بات سے حضرت سلیمان مسکرا کر ہنس دیئے اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا ﻻؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے (سورۃ نمل  19 )

اللہ تعالیٰ نے ان کو دوسروں کے علاوہ کس قدر انعام سے نوازا  ۔

ہد ہد اور ملکہ بلقیس کا قصہ :

 قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام  اور ہد ہد کا قصہ بیان ہوا ہے ۔  سورۃ نمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام  اور ملکہ سبا کا واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔

حضرت سلیمان علیہ السلام  کے بے مثال دربار میں انسانوں کے علاوہ جن اور حیوانات  بھی فوج در فوج  حاضر رہتے ۔ایک مرتبہ  دربار اپنے پورے جاہ وچشم کے ساتھ لگا ہوا تھا ۔  حضرت سلیمان علیہ السلام  نے  جائزہ لیا تو ہد ہد غیر حاجر تھا آپ ؑ کو سخت   غصہ ایا ۔ تھوڑی دیر بعد جب  وہ  حاضر ہوا تو کہنے لگا :

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ ﴿٢٢﴾

کچھ زیاده دیر نہ گزری تھی کہ آ کر اس نے کہا میں ایک ایسی چیز کی خبر ﻻیا ہوں کہ تجھے اس کی خبر ہی نہیں، میں سبا کی ایک سچی خبر تیرے پاس لایا ہوں

إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣

میں نے دیکھا کہ ان کی بادشاہت ایک عورت کر رہی ہے جسے ہر قسم کی چیز سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے اور اس کا تخت بھی بڑی عظمت واﻻ ہے( سورۃ نمل )

 وہ ملک سبا کی خبر لایا تھا جہاں ایک  عورت  کی بادشاہت  تھی اور اس کی قوم آفتاب پرست تھی ۔  اور ایک شاہی تخت تھاجو ہیرے موتیوں اور سونے چاندی سے جڑ ا ہواتھا۔

حضرت سلیمان ؑ نے جواب دیا :

قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ    27؀

سلیمان نے کہا : ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تم نے سچ کہا ہے یا جھوٹ بولنے والوں میں تم بھی شامل ہوگئے ہو۔

اِذْهَبْ بِّكِتٰبِيْ ھٰذَا فَاَلْقِهْ اِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُوْنَ    28؁

 میرا یہ خط لے کر جاؤ اور ان کے پاس ڈال دینا، پھر الگ ہٹ جانا، اور دیکھنا کہ وہ جواب میں کیا کرتے ہیں۔”

ملکہ سبا نے اپنے درباریوں سے کہا۔ میری طرف  ایک کریم خطہ ڈالا گیاہے پھر مضمون پڑھ کر سنایا۔

إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴿٣٠﴾ ( سورۃ نمل )

جو سلیمان کی طرف سے ہے اور جو رحم  کرنے والے مہربان اللہ کے نام سے شروع ہے۔

خط سنانے کے بعد  مشورہ  کیا کہ تمہاری ( درباریوں ) رائے کیاہے۔درباریوں نے فیصلہ  ملکہ کے سپرد کردیا۔

ملکہ نے کہا : قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّةَ اَهْلِهَآ اَذِلَّةً  ۚ وَكَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ   34؁

ملکہ بولی : حقیقت یہ ہے کہ بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب کر ڈالتے ہیں، اور اس کے باعزت باشندوں کو ذلیل کر کے چھوڑتے ہیں، اور یہی کچھ یہ لوگ بھی کریں گے۔

وَاِنِّىْ مُرْسِلَةٌ اِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ   35؀

 اور میں ان کے پاس ایک تحفہ بھیجتی ہوں، پھر دیکھوں گی کہ ایلچی کیا جواب لے کر واپس آتے ہیں؟

جب قاصد  تحائف لے کر حضرت سلیمان  علیہ السلام  کے پا س آئے تو آپ ؑ نے فرمایا :

فَلَمَّا جَاۗءَ سُلَيْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ ۡفَمَآ اٰتٰىـنِۦ اللّٰهُ خَيْرٌ مِّمَّآ اٰتٰىكُمْ ۚ بَلْ اَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ   36؀

 چنانچہ جب ایلچی سلیمان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا : کیا تم مال سے میری امداد کرنا چاہتے ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے، البتہ تم ہی لوگ اپنے تحفے پر خوش ہوتے ہو۔

اور سخت الفاظ میں  جنگ کا اعلان کیا جب اللہ کے پیغمبر کی طرف سے جلالی پیغام  پہنچا تو ملکہ کو عاجزی وانکساری   سے جھک جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا ۔

ملکہ  بلقیس کا تخت :  حضرت سلیمان علیہ السلام  نے اپنے درباری  جنوں کو حکم دیا کہ ملکہ  کے پہچنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لایا جائے تو ایک قوی  ہیکل جن نے کہا :

قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِيْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ  ۚ وَاِنِّىْ عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ اَمِيْنٌ    39؁

ایک قوی ہیکل جن نے کہا : آپ اپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ ہوں گے کہ میں اس سے پہلے ہی اسے آپ کے پاس لے آؤں گا، اور یقین رکھیے کہ میں اس کام کی پوری طاقت رکھتا ہوں (اور) امانت دار بھی ہوں۔

دربار میں موجود ایک دوسرے شخص   نے کہا : ( جس کے پاس کتاب الٰہی  کا علم تھا ) میں اس کو آپ کے پاس پلک  جھپکنے سے بھی پہلے لے آؤں گا ۔ یہ صاحب  علم  آصف بن برخیا تھے ۔ حضرت سلیما ن علیہ السلام  کے خالہ زاد بھائی  ۔

تخت آپ علیہ السلام  کے سامنے موجود تھا پھر آپ علیہ السلام  نے حکم دیا  اس کی شکل بدل دو تاکہ ملکہ کی عقل وفہم کا اندازہ لگا سکیں ۔ جب ملکہ دربار میں آئی تو پوچھاگیا : کیا تیرا تخت بھی ایسا ہی ہے ؟ اس نے جواب دیا : گویا ہو بہو وہی ہے  ۔ ہم کو اس سے پہلے ہی ( سلیمان کی عظمت وشان کا ) علم ہوگیاتھا اور ہم فرمانبردار  ہیں۔

پھر حضرت سلیمان  علیہ السلام ملکہ کو ایک محل میں لے گئے جو مکمل  شیشے کا تھا اور نیچے  پانی جاری تھا وہ حیران ہوئی اور اس  پر چلنے کے   لیے  اپنی پنڈلیاں  کھول لیں جب  پاؤں فرش پر رکھا تو زرمندہ ہوئی کہ دھوکہ کھاگئی ۔ یہ عظیم سلطنت دیکھ کر وہ جان گئی کہ حضرت سلیما  ن علیہ السلام صرف بادشاہ  ہی نہیں بلکہ نبی بھی ہیں چنانچہ  اس   نے فوراً اسلام قبول کیاا ور اللہ پرا یمان لائی۔ا سلام قبول کرلینے کے بعد حضرت سلیمان ؑ نے ملکہ سبا ( بلقیس ) سے نکاح کرلیا۔

بیت المقدس کی تعمیر :۔

ایک مرتبہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے حضرت  محمد ﷺ نے دریافت کیا : یارسول اللہ  ﷺدنیا میں سب سے پہلی مسجد کون سی ہے ؟

آپ ﷺ  نے فرمایا : مسجد حرام ۔ پھر دریافت کیا اس  کے بعد ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :مسجداقصیٰ  ۔ تیسری مرتبہ پوچھا : ان دونوں کے درمیانی  مدت کتنی  ہے  ! تو فرمایا : چالیس سال کی مدت  ہے۔

 عام طور پر یہ مشہور ہے مسجد اقصیٰ  اور بیت المقدس  کی تعمیر حضرت سلیما ن علیہ السلام  کے زمانے میں ہوئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے مسجد حرام  کی بنیاد رکھی جبکہ حضرت سلیمان ؑ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام   کے درمیان ایک زہار سال سے بھی زیادہ کا فاصلہ ہے۔ا س  حدیث کا مطلب ہے حضرت ابراہیم ؑ نے مسجد حرام کی  بنیاد رکھی اور  بیت المقدس  کی بنیاد آپ علیہ السلام  کے پوتے حضرت  یعقوب علیہ السلام  نے رکھی ۔

حضرت سلیمان ؑنے بیت المقدس کی تعمیراز سر نو فرمائی اوراس کی تکمیل کے لیے جنوں سے خدمت  لی ۔

حضرت سلیما ن علیہ السلام کی وفات :

اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام  کی موت سے بھی لوگوں کو عبرت ہو اور نشانیاں ظاہر ہوں  کیونکہ  اس دور میں لوگ جنات کے  فتنےمیں مبتلا تھے یہ خیال کرتے تھے کہ جنات کو غیب کا علم ہے ۔ جنات بیت المقدس  کی تعمیر میں مصروف تھے اورآپ ؑ کے ہاتھ میں لاٹھی تھی جس کو تھامے کھڑے تھے اور  نگرانی فرمارہے تھے کہ آپ ؑ کی روح قبض کرلی گئی ۔ ایک سال تک آپ ؑ اسی حالت می کھڑے رہے ۔  پھر دیمک  نےلاٹھی  کو کھوکھلا کرنا شروع کردیا آخر لاٹھی ٹوٹ گئی اورآپ ؑ زمین پرگر گئے۔ اس وقت جنات  کو علم ہوا حضرت سلیمان علیہ السلام  کو فوت ہوئے  عرصہ ہوگیا اور کسی کو  علم نہ ہوا۔ا س سےا نسانوں  کو بھی معلوم ہوگیا کہ جنات کو غیب  کا علم نہیں ۔

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰي مَوْتِهٖٓ اِلَّا دَاۗبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِي الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ  14؀ۭ

پھر جب ہم نے سلیمان کی موت کا فیصلہ کیا تو ان جنات کو ان کی موت کا پتہ کسی اور نے نہیں بلکہ زمین کے کیڑے نے دیا جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا۔ چنانچہ جب وہ گر پڑے تو جنات کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب کا علم جانتے ہوتے تو اس ذلت والی تکلیف میں مبتلا نہ رہتے۔

قرآن پاک میں حضرت سلیمان علیہ السلام  کی وفات سے متعلق ذکر  ملتا ہے کہ آپ ؑ کی وفات واقع ہوگئی مگر آپ ؑ اپنی لاٹھی کے سہارے بیت المقدس کی تعمیر تک کھڑے رہے اور ان  کسی کو علم نہ ہوسکا۔ قرآ ن پاک  کے ہر بیان پر ہم مکمل ایمان  رکھتے ہیں ۔

کچھ سوالات جو ذہنوں میں اٹھتے ہیں ان کا جواب تلاش کرنا ہمارے لیے لازم آتا ہے ۔

  • اعتراض : اتنی بڑی سلطنت میں یہ بات کیسے چھپی رہی کہ کسی کو  علم نہ ہوسکا؟

ا س کا جواب ہے کہ حضرت سلیما ن ؑ  کی عادت  تھی کہ وہ کئی کئی  مہینے تنہائی میں عبادت کیاکرتے ا ستعمال کی چیزیں اور کھانا  پینا ساتھ رکھتے تھے  اس دوران کسی کو ان کے پاس جانے کی اجازت نہ ہوتی۔

حضرت سلیمان علیہ السلام  کو اپنی وفات کاپہلےسے علم تھا لہذا انہوں نے اپنے گھر والوں کو سختی سے تنبیہ کردی کہ سلطنت کے کسی فرد  کو اس بات کا علم نہ  ہو اس کا مقصد بیت المقدس کی تعمیر  کو پورا کرنا تھا۔ جنات  بیت المقدس کی تعمیر کررہے تھے اور آپ ؑ ان کی نگرانی  پر معمور تھے ۔

ایک سال تک آپ علیہ السلام  کا جسد خاکی  الٹھی کے سہارے کھڑا رہا جنات بھی اتنی سخت نگرانی پر حیران تھے ۔ا س  مدت میں جب بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہوگئی  تو آپ ؑ کے عصا کو دیمک نے کھوکھلا کردیا اورآپ ؑ کا جسم زمین  پر گرگیا ۔

اللہ تعالیٰ   نے اپنے انبیاء کرام کو کتنے ہی معجزات عطا  فرمائے جب حضرت عزیر علیہ السلام  کو سو سال سلاسکتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان  پر اٹھاسکتا ہے  تویہ کیسے ممکن نہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا جسد خاکی ایک سال تک لاٹھی کے سہارے کھڑا رہے ۔ اس کی بارگاہ میں سب ممکن ہے اور اسے سب آسان ہے ۔

 

اپنا تبصرہ بھیجیں