جانور کے حرام اجزاء اور حرام مغز کی تفصیل

فتویٰ نمبر:381

سوال:- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: جواب نامہ ب۱؍۸۶۵ ملا، فتویٰ میں حرام مغز کو حرام نہیں بتایا گیا ہے، جب کہ فتاویٰ رشیدیہ میں ۴۵۴ پر حرام مغز کو ممنوع لکھا ہے، فتاویٰ رشیدیہ کے مسئلہ کا مطلب سمجھایا جائے  اور بہشتی زیور میں درمختار کے حوالہ سے حسبِ ذیل عبارت کا مطلب سمجھا دیا جائے:

وکرہ تحریمًا من الشاۃ سبع: الحیاء، والخصیۃ، والغدۃ، والمثانۃ، والمرارۃ، والدم المسفوح، والذکر۔ (تنویر الأبصار مع الدر المختار، کتاب الخنثی / مسائل شتیٰ ۶؍۷۴۹ کراچی)

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہم نے جو فتویٰ لکھا تھا، وہ تمام کتبِ فقہ کی صراحتوں کے موافق ہے، آپ نے جو عبارت نقل کی ہے اُس میں بھی حرام مغز کا ذکر نہیں ہے، حضرت گنگوہیؒ نے حرام مغز کو جو ممنوع کہا ہے اُس کا مأخذ ہمیں معلوم نہیں ہوسکا۔ ۷؍حرام چیزیں یہ ہیں: (۱) مادہ: جانور کی شرم گاہ (۲) غدود: جو خون جم کر گٹھلی بن جاتا ہے (۳) مثانہ (۴) پتہ (۵) بہنے والا خون (۶) نر جانور کاذکر (۷) خصیہ۔ آپ کی نقل کردہ عبارت کا یہی ترجمہ ہے۔

وکرہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الشاۃ الذکر والأنثیین والقبل والغدۃ والمرارۃ والمثانۃ والدم۔ قال أبوحنیفۃ: الدم حرام وأکرہ الستۃ۔ (شامي ۱۰؍۴۷۷ زکریا، البحر الرائق ۸؍۴۸۵، مجمع الأنہر ۴؍۴۸۹ بیروت)

قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللّٰہ: کرہ تحریمًا، وقیل: تنزیہًا – والأول أوجہ – من الشاۃ سبع: الحیاء، والخصیۃ، والغدۃ، والمثانۃ، والمرارۃ، والدم المسفوح، والذکر، للأثر الوارد في کراہۃ ذٰلک۔ وجمعہا بعضہم في بیت واحد، فقال: فقل ذکر والأنثیان مثانۃ کذٰلک دم ثم المرارۃ والغدود۔

وقال غیرہ:

إذا ما ذکیت شاۃً فکلہا

سوی سبع ففیہن الوبال

فحاء ثم خاء ثم غین

ودال ثم میمان و ذال

(الدر المختار)

قال الشامي رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: قولہ: کرہ تحریمًا، لما روی الأوزاعي عن واصل بن أبي جمیلۃ عن مجاہد قال: کرہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الشاۃ الذکرَ والأنثیین، والقبل، والغدۃ، والمرارۃ، والمثانۃ، والدم۔ قال أبوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: الدم حرام وأکرہ الستۃ، وذٰلک لقولہ عزوجل: {حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ} فلما تناولہ النص، قطع بتحریمہ، وکرہ ما سواہ؛ لأنہ مما تستخبثہ الأنفس وتکرہہ۔ وہٰذا المعنیٰ سبب الکراہیۃ، لقولہ تعالیٰ: {وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ} زیلعي۔

وقال في البدائع آخر کتاب الذبائح: وما روي عن مجاہد، فالمراد منہ کراہۃ التحریم بدلیل أنہ جمع بین الستۃ وبین الدم في الکراہۃ، والدم المسفوح محرم۔ والمروي عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أنہ قال: الدم حراموأکرہ الستۃ۔ فأطلق الحرام علی الدم، وسمی ما سواہ مکروہًا؛ لأن الحرام المطلق ما ثبتت حرمتہ بدلیل مقطوع بہ، وہو المفسر من الکتاب، قال اللّٰہ تعالیٰ: {اَوْ دَمًا مَسْفُوْحًا} وانعقد الإجماع علی حرمتہ۔ وأما حرمۃ ما سواہ من الستۃ، فما ثبت بدلیل مقطوع بہ؛ بل بالاجتہاد أو بظاہر الکتاب المحتمل للتأویل أو الحدیث، فلذا فصل، فسمی الدم حرامًا وذا مکروہًا … الخ۔ (رد المحتار، کتاب الخنثیٰ / مسائل شتی ۶؍۷۴۹ کراچی، وکذا في بدائع الصنائع، کتاب الذبائح / فصل فیما یحرم أکلہ من أجزاء الحیوان ۶؍۲۷۲ دار الکتب العلمیۃ بیروت، وکذا في الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الذبائح / الباب الثالث في المتفرقات ۵؍۲۹۰ زکریا)

قولہ: والدم المسفوح، وزیدَ نخاع الصلب۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی الدر المختار، کتاب الخنثیٰ / مسائل شتی ۴؍۳۶۰ دار المعرفۃ بیروت)

وکرہ من الشاۃ الحیاء والخصیۃ والغدۃ … ونخاع الصلب۔ (کنز الدقائق / مسائل شتی ۴۳۲) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۱۰؍۱۴۱۶ھ

الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ

اپنا تبصرہ بھیجیں