کیا بیوی اپنے شوہر کے لئے آدھا دین ہے

سوال: حدیث میں ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے لیے آدھا دین ہے آدھا دین سے کیا مراد ہے؟

فتویٰ نمبر:152

الجواب:

عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تزوج فقد استكمل نصف الإيمان فليتق الله في النصف الباقي .
( الطبراني الأوسط : 7643، 8/315 – شعب الإيمان :5100 ، 7/241 – مستدرك الحاكم :2/161 )
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے شادی کرلی اس نے آدھا ایمان پورا کرلیا لہذا اسے چاہئے کہ باقی آدھے میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرے ۔
{ الطبرانی الاوسط ، شعب الایمان ، مستدرک الحاکم }اسناد حسن لغیرہ

زیر بحث حدیث سے بھی شادی کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ شادی کو اسلام میں دین کا ایک حصہ بلکہ ایک بڑا حصہ ہونے کی حیثیت حاصل ہے لہذا ہر صاحب استطاعت کو چاہئے کہ وہ شادی کرے ، عالی تعلیم ، اونچی نوکری
اور کثیر مال کا حصول اس میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے ممکن ہے کہ نکاح کی برکت سے اللہ تعالی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت و فراخی میں بدل دے ، اس حدیث میں نکاح کو نصف ایمان یا نصف دین یا تو نکاح پر ترغیب اوراہمیت کے پیش نظر کہا گیا تاکہ لوگ اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس میں کوتاہی نہ کریں یا پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر دینی و دنیاوی طور پر انسان کی بربادی یا تو پیٹ کے لئے ہوتی ہے یا پھر شرمگاہ کے لئے بلکہ یہ عمومی طور پر دیکھا جاتا ہے کہ انہیں دونوں کام کی فکر وسعی میں پڑ کر لوگ دین سے دوری اختیار کرتے ہیں لہذا فرمایا گیا کہ اگر کسی نے شادی کرلی اپنے نصف دین کو محفوظ کرلیا لہذا باقی نصف کے حفاظت کی بھی فکر کرنی چاہئے ، اس سے واضح ہوا کہ اسلام میں شادی صرف شہوت رازی کا ذریعہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ خانہ بربادی اور انسانی آزادی پر پابندی ہے جیسا کہ بعض جاہل لوگ تصور کرتے ہیں بلکہ یہ ایک مبارک عمل اور اللہ تعالی کے نیک بندوں کی سنت ہے ، البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر شادی کرنے والا مذکورہ بالا فضیلت کو حاصل بھی کرلے ، مذکورہ فضیلت کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ شادی میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے ۔

[۱] شادی محض جنسی خواہش کے پورا کرنے کا نام نہیں بلکہ تکمیل فرد کا ایک فطری شرعی اور لازمی حصہ ہے ، اور اللہ کے افضل ترین بندے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ، ارشاد نبوی ہے : ” نکاح میری سنت ہے ور جو میری سنت پر عمل نہ کرے وہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے ” ۔ { ابن ماجہ }۔ مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نےفرمایا : تمہیں چاہئے کہ تم شادی کرو کیونکہ اس امت کے سب سے افضل شخص [ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ] سب سے زیادہ بیویوں والے تھے ۔
{ مصنف ابن ابی شیبہ } ۔

[۲] زنا و فواحش سے اپنی پاکدامنی مقصود ہو تاکہ دیگر دنیاوی ضروریات اور بعض بیماریوں سے نجات کے ساتھ اللہ تعالی کی مدد کا حق دار ٹھہرے ۔ ” جو شخص عفت و پاکدامنی کے لئے شادی کرتا ہے اللہ تعالی اس کی مدد ضرور کرتا ہے ” ۔
{ المشکاۃ } ۔

[۳] اولاد کی خواہش و نیت رکھے تاکہ اس کے لئے صدقہ جاریہ اور قیامت کے دن جہنم سے نجات کا ذریعہ ہو ۔ ” قیامت کے دن بچوں سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجا­ؤ ، وہ جواب دیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہم جنت میں اس وقت تک داخل نہ ہوں گے جب تک کہ ہمارے ماں باپ جنت میں داخل نہ ہوجائیں ، اللہ تعالی فرمائے گا تم لوگ اور تمہارے ماں باپ سب کے سب جنت میں داخل ہوجا­ؤ ” ۔
{ احمد :4/105 } ۔

[۴] دیندار اور شکر
گزار عورت سے شادی کرے : ایک بار صحابہ نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ہم کون سا مال حاصل کرنے کی کوشش کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہیں چاہئے کہ شکر کرنے والا دل اور ذکر کرنے والی زبان حاصل کرو اور ایسی نیک مومن بیوی جو آخرت کے معاملات میں تمہاری مدد کرے ۔
{ الترمذی ، ابن ماجہ }۔
واللہ تعالیٰ اعلم
 

اپنا تبصرہ بھیجیں