تعجب ہے وقت كے شيخ الاسلام كو سمجھانے كا جذبہ آج بھى زندہ ہے

جامعہ دار العلوم کراچی میں ہر سال چودہ اگست جوش و خروش سے منایا جاتا ہے ا س سال چودہ اگست کی پر وقار تقریب ميں شنيد ہے كہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے پاکستان میں نفاذ اسلام میں مذہبی طبقہ کی کوہتائیوں پر بهی بات کی ہے . جس پر سوشل میڈیا پر بعض سیاسی مذہبی کارکن قدرے جذباتی ہو کر الٹا شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب سے نفاذ اسلام کی جہدوجہد میں ان کا کردار پوچھتے نظر آ رہے ہیں۔۔ ہے نا لطف كى بات
دار العلوم میں پڑھنے والے طلبہ  قديم فضلاء اور حضرت کے مواعظ اور بیانات سننے اور پڑهنے والے سب جانتے ہیں کہ شیخ صاحب نے اپنا یہ دکھ درد کوئی پہلی مرتبہ بیان نہیں کیا وہ اپنے اسباق دروس اور بیانات میں برسوں سے اصلاحی انداز میں ملک میں جاری نفاذ اسلام کی کوششوں پر تنبیہ کرتے آئے ہیں..نہ یہ کوئی ڈھکی چھپى بات ہے اور نہ ہی حضرت نے پہلی مرتبہ ایسا کچھ کہا ہے.. ہاں نئی بات بس یہ ہے کہ جنگل میں جیسے بندر کے ہاتھ ناریل آ گیا تھا تو اسے پھوڑنے كے لئے پورے جنگل ميں كوئى جگہ نہيں ملى تھى تو اس نے اپنے سر پر مار كر توڑا تھا۔۔ ویسے شہر میں ہمارے ہاتھ سوشل میڈیا لگ گيا ہ ے ہمارے سر ميں جو بات يا سوال آتا ہے وہ ہم يہاں مار ديتے ہيں۔۔ بس اللہ اللہ خير سلا۔
دار العلوم كے زمانہ طالب علمی دور ميں ہم بھى کئی اہم مذہبى اور سیاسی مواقع پر اچھلتے کودتے رہے۔۔ بڑھ بڑھ كر سوالات بڑوں بڑوں پر کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر ایک استاد اللہ انہيں جزائے خير دے نے پوچھا آپ کا جذبہ اپنی جگہ قابل قدر ہے پر یہ بتائیں ہوا کے رخ پر اڑتے ہوئے آپ لوگ جو سوالات مفتی تقی عثمانی صاحب سے پوچھنا چاہ رہے ہیں ان سے ضرورپوچھيں۔ آپ اپنے جس موقف كو حق سمجھ كرانہيں بھى اس پر قائل كرنا چاہ رہے ہيں آپ ضرور اس پر ان سے بات كريں انہيں قائل كريں۔ليكن ايك بات كا خيال ركھيں شريعت ، اخلاق، ادب آداب نے اس كے كچھ اصول و ضوابط ہميں دے ركھے ہيں۔ آپ طلبہ كيا سمجھتے ہيں آپ كے ننھے دماغوں ميں جو سوالات خلجان برپا كئے ہوئے ہيں دين كى تڑپ اس كى نشر و اشاعت كى فكر ليظہرہ على الدين كلہ ميں اپنا سا كردار ادا كرنے كى سعادت حاصل كرنے كى جو فكر ہے جو جذبات امڈ رہے ہيں كيا ان كا عشر عشير بھى وقت كے شيخ الاسلام اور اتنے بڑے مفتى كو حاصل نہيں۔
جو آپ لوگ ان بزرگوں كے بارے ميں يوں بدگمان ہو جاتے ہيں اور دوسروں كو بھى لا شعورى طور پر بد گمان كرتے جاتے ہيں يہ كونسى دين كى خدمت ہے؟ مجھے بھى سمجھائيں آپ سب؟
ان كى باتوں كا ہمارے پاس جواب كوئى نہيں تھا اور جواب ہوتا بھى كيا؟ انھوں نے ہميں كہا ابھى آپ علم فہم اور تجربے كے اس درجہ پر نہيں پہنچے جہاں اللہ نے ان كو پہنچا ديا ہے۔ يقين نہيں تو حسن ظن ہى ركھ ليجئے كہ آپ سے بڑھ كر نفاذ اسلام اور امت كى فكر انہيں بھى لاحق ہے بس طريقہ كار ميں اختلاف ہے وہ اپنے طريقے سے كام كر رہے ہيں آپ اپنے طريقے سے كام جارى ركھيں اور ايك دوسرے كے موقف نظريہ اور رائے كو سمجھنے كى كوشش كريں۔ اس كے ساتھ ہى انھوں سوال داغ ديا اور پوچھا كہ كيا آپ نے شيخ الحديث حضرت مولانا زكريا صاحب رحمہ اللہ كى كتاب *الاعتدال* پڑھى ہے ہمارا جواب پھر نفى ميں تھا تو فرمايا ميں سمجھتا ہوں نفاذ اسلام كى سياسى جہدو جہد كرنے والے كسى كاركن كے لئے اس وقت تك عملى جہدو جہد كرنا درست نہيں جب تك وہ حضرت شيخ الحديث مولانا زكريا صاحب كى كتاب الاعتدال كا ٹھنڈے دل و دماغ سے مطالعہ نہ كر لے پھر خود ہى بتايا كہ يہ كتاب حضرت نے اپنے ايك مخلص خادم اور شاگرد كے خط كے جواب ميں لكھى تھى خط ميں اس نيك بخت نے حضرت مدنى اور حضرت تھانوى دونوں كے مابين اختلاف پر حضرت سے بڑے اہم سوالات كئے تھے؟
قيام پاكستان سے قبل كے حالات پر اس وقت كے لوگوں ميں افواہوں غلط فہميوں كم مائيگى و كم علمى نے كيا كيا سوالات پيدا نہ كيے ہوں گے اور كن كن لوگوں نے حضرت شيخ زكريا صاحب نور اللہ مرقدہ سے پوچھےنہ ہوں گے ليكن يقينا سليقہ اخلاص اور طلب حق كا جذبہ ہى تھا كہ اللہ تعالى نے اس نيك بخت كے سوالات كى بركت سے حضرت شيخ سے ايسى كتاب لكھوائى جو آج بھى سياسى كاركنوں كے لئے مشعل راہ ہے۔
پھر استاد جى نے پوچھا كيا آپ نے حضرت مولانا مفتى محمد تقى عثمانى صاحب كى كتاب *نفاذ شريعت اور اس كے مسائل* پڑھى ہے ہمارا جواب اس پر بھى نفى ميں تھا ابتدائى درجات كے طلبہ جن كا سياسى قد كاٹھ اور مبلغ علمى بس وہ جلسے جلوس ہى ہوتے ہيں جن ميں اسٹيجوں پر بيٹھے عوامى خطباء كى جذباتى تقارير ہوتيں ہيں اس سب كے ہوتے ہوئے جواب نہ م يں ہى آنا تھا تو نہ ميں جواب سن كر استاد نے ہميں مشورہ ديا كہ پاكستان ميں نفاذ اسلام كے مسائل پر حضرت مفتى تقى عثمانى صاحب كى پہلے يہ كتاب پڑھيں اس كے بعد حضرت سے وقت ليكر ان كے دفتر جا كر تسلى سے اپنے سوالات پيش كر آنا يا تحريرى طور پر انہيں پيش كر دينا وہ زيادہ بہتر رہے گا۔ كيا معلوم آپ لوگوں كے قيمتى سوالات كى بركت سے حضرت كے بحر علمى سے بھى ايك شاہكار كتاب نكل آئے جو آنے والے سياسى كاركنوں كے لئے مشعل راہ بن جائے اور آپ كے لئے صدقہ جاريہ۔۔
جذبات بھى بنے ہوئے تھے اور آتش بھى جواں تھا وقت كے شيخ الاسلام كو نفاذ اسلام كا صحيح طريقہ سليقہ سمجھانے كا جذبہ بھى موجزن تھا سو اگلے ہى روز دونوں كتابيں خريديں اور مطالعہ شروع كر ديا۔ چونكہ استاد محترم كى تاكيد تھى كہ مطالعہ تسلى سے كرنا ہے اوپر سے حضرت شيخ زكريا صاحب نے بھى كتاب بھى ايسى ہى كيفيات ميں مطالعہ كرنے كى تاكيد پہلے سے كر ركھى تھى اس ليے مدرسہ كے اسباق، تكرار مطالعہ وغيرہ كے ساتھ كوئى ہفتہ بھر ميں دونوں كتابيں ختم كيں اور اس كے بعد سے آج تك ايسى ٹھنڈ پڑى كہ اللہ اللہ۔ فيس بك پر برسوں پرانے اس جذبے كو بيدار ہوتے ديكھ كر تعجب ہوا كہ وقت كے شيخ الاسلام كو سمجھانے كا جذبہ آج بھى زندہ ہے؟

شمشاداحمد

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں