تعارف سورۃ طہ

یہ سورت مکہ مکرمہ کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی
مستند روایات سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی سورت کو سن کر اسلام لائے تھےان کی بہن حضرت فاطمہ او ران کے بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہما ان سے پہلے خفیہ طورپر اسلام لاچکے تھے جس کا انہیں پتہ نہیں تھا  ایک روز وہ گھر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے راستے میں نعیم بن عبداللہ نامی ایک صاحب انہیں ملےانہوں نے حضرت عمر سے کہا کہ آپ پہلے اپنے گھر کی خبر لیں جہاں آپ کی بہن اور بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں حضرت عمر غصے کے عالم میں واپس آئے تو بہن اوربہنوئی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے سورہ طہ پڑھ رہے تھے  حضرت عمر کو آتے دیکھا تو انہوں نے وہ صحیفہ جس پر سورۂ طہ لکھی ہوئی تھی کہیں چھپادیا لیکن حضرت عمر پڑھنے کی آواز سن چکے تھے انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم مسلمان ہوچکے ہو  او ریہ کہہ کر بہن او ربہنوئی دونوں کو بہت مارا  اس وقت ان دونوں نے کہا کہ آپ ہمیں کوئی بھی سزا دیں ہم مسلمان ہوچکے ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کلام اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوا ہے وہ پڑھ رہے تھے حضرت عمر نے کہا کہ اچھا مجھے دکھاؤ وہ کیسا کلام ہے بہن نے ان سے غسل کروا کر صحیفہ ان کو دکھایا جس میں سورہ طہ لکھی ہوئی تھی اسے پڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ مبہوت رہ گئے  او رانہیں یقین ہوگیا کہ یہ کسی انسان کا نہیں اللہ تعالی کا کلام ہے  حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں اسلام لانے کی ترغیب دی او ربتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالی ابوجہل یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو اسلام کی توفیق دے کر اسلام کی قوت کا سامان پیدا فرمادے  چنانچہ اسی وقت وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورا سلام قبول کرلیا۔

جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی وہ مسلمانوں کے لئے بڑی آزمائش اور تکلیفوں کا زمانہ تھا کفارِ مکہ نے ان پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا تھا، اس لئے اس سورت کا بنیادی مقصد ان کو تسلی دینا تھا کہ اس قسم کی آزمائشیں حق تعالی کے علم برداروں کو ہر زمانے میں پیش آئی ہیں ؛لیکن آخری انجام انہی کے حق میں ہوا ہے ،چنانچہ اسی سلسلے میں حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ تفصیل کے ساتھ اس سورت میں بیان ہوا ہے ،جس سے دونوں باتیں ثابت ہوتی ہیں ،یہ بھی کہ ایمان والوں کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اوریہ بھی کہ آخری فتح انہی کی ہوتی ہے ،اس کے علاوہ یہ بھی ثابت کرنا مقصود ہے کہ تمام انبیاء کرام کی بنیادی دعوت ایک ہی ہوتی ہے کہ انسان خدا ئے واحد پر ایمان لائے او راس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔

 

اپنا تبصرہ بھیجیں