پوشیدہ گناہ کو ظاہر کرنا۔

سوا ل: ایک لڑکی سے زنا ہوگیا لیکن یہ بات ظاہر نہیں ہوئی اور اس نے اللہ تعالی سے بہت معافی مانگی عرصہ دو سال کے بعد اس کا رشتہ آیا ہے والدین شادی کرنا چاہتے ہیں،مگر اس کے دل میں شرمندگی ہے، پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس کو شادی کے بعد اپنا پہلا گناہ اپنے شوہر کو بتانا چاہیے؟؟ اگر وہ نہیں بتائے گی تو گناہگار ہوگی؟
الجواب باسم ملھم الصواب
جب گناہ کے بعد سچے دل سے ندامت ہوئی اور توبہ کرلی اور اللہ رب العزت نے اس گناہ پر پردہ پوشی بھی کی ہے تو اب اسے کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ بھی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہے جیسے اس نے گناہ ہی نہیں کیا۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کے اِفشاء کرنے سے منع فرمایا ہے اور اپنے گناہوں کا پرچار کرنے والوں کے بارے میں سخت وعید سنائی ہے۔ لہذا شوہر کو بتانے کی بالکل ضرورت نہیں اور اس پر وہ گناہ گار بھی نہ ہوگی۔
===================
حوالہ جات
1 ۔ ” عن ابی عبیدة بن عبد اللہ عن ابیہ , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” التائب من الذنب كمن لا ذنب له”. (سنن ابن ماجہ: 4250)۔
ترجمہ : ” عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص جیسا ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو “۔
2 ۔ عن سالم بن عبد الله قال: سمعت أبا هريرة يقول:سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: كل أمتي معافى إلا المجاهرين، وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا، ثم يصبح وقد ستره الله، فيقول: يا فلان، عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه”. (صحیح البخاری: 6069)
ترجمہ :”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ: ” میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوائے گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپائے رکھا تھا، مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا”۔
3 ۔ “قال الحافظ: والمعنى، لكن المجاهرون بالمعاصي لايعافون، والمجاهر الفاسق المعلن بفسقه الذي يأتي بالفاحشة ثم يشيعها بين الناس تفاخرا وتهورا ووقاحة. ” وإن من المجانة ” أي الوقاحة والاستهتار بالدين والاستخفاف بحدود الله ” أن يعمل الرجل بالليل ” أي معصية ” ثم يصبح وقد ستره الله، فيقول: يا فلان عملت البارحة كذا وكذا ” أي يحدث إخوان السوء من أصدقائه بأنه فعل المعصية الفلانية “وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه” وذلك لأنه لا يريد الستر، وإنما يريد الفضيحة، حيث يراها في نظره مفخرة ومباهاة.۔۔۔۔۔۔ ويدل الحديث على أن ارتكاب المعصية مع سترها أهون وأخف من المجاهرة بها، لأن المعصية مع الستر تقبل العفو الإلهي، أما مع المجاهرة فإنه لا يعفى عنها، لقوله – صلى الله عليه وسلم – ” كل أمتي معافى إلا المجاهرون ” وذلك لأن المجاهرة وقاحة وجرأة وانتهاك لحدود الله، واستخفاف بالشريعة كما قال صلى الله عليه وسلم: ” وإن من المجانة أن يعمل الرجل بالليل عملا، ثم يصبح وقد ستره الله فيقول: يا فلان عملت البارحة كذا ” قال ابن بطال في الجهر بالمعصية استخفاف بحق الله ورسوله.” (منار القاری شرح صحیح البخاری: كتاب الادب، باب ستر المؤمن على نفسه، 251،252/5 ط: مكتبة دار البيان، دمشق)۔
واللہ اعلم بالصواب۔
13 جمادی الثانی 1444
6 جنوری 2023۔

اپنا تبصرہ بھیجیں