عرب٫جزیرہ العرب اور نسب نامہ

”چھٹا سبق“

سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم

عرب٫جزیرہ العرب اور نسب نامہ

“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”خاتم النبیین” حضرت محمد مصطفی صلَّی اللہُ علیہ وسلم”کو “اللہ جل جلالہ” نے عربوں میں پیدا کیا٫اور” عربوں میں بھی ان “عربوں” میں انتخاب کیا جو”جزیرہ العرب” میں رہتے ہیں٫ اسکی کیا حکمتیں ہیں؟ اسے ہم نکات کی صورت میں پیش کرتے ہیں-

“عرب میں انتخاب کی وجہ”

1-“عرب” دنیا کی قدیم ترین اقوام میں سے ہیں- “حضرت ابراہیم علیہ السلام”نے جب” مکہ” کی “وادیء غیر ذی زرع” میں “اپنی بیوی”بی بی ہاجرہ اور شیرخوار بیٹے” “اسماعیل” کو آباد کیا تھا تو وہاں”آب زم زم” کی دولت دیکھ کر” بنو جرہم” نے یہیں اپنی بستیاں آباد کرلیں اور جب سے وہاں دنیا کی ہر نعمت پائ جاتی ہے-

قوم “عاد٫ثمود٫طسم اور جدیس”ان عرب اقوام میں سے ہیں جن کو”اللّٰہ تعالٰی” نے نیست ونابود کردیا تھا٫ جنکی نسلیں تک ناپید ہوگئیں- جبکہ”عدنانی اور قحطانی” عرب کے یہ دو سلسلے باقی رہے-“توریت” اور”انجیل” میں بھی ان عربوں” کا تذکرہ ہے-

“ہندوستان اور عرب”کے تعلقات تو قدیم زمانے سے چلے آ رہے تھے-“قدیم یونانی”اخیالس(456- 525″قبل مسیح) نے “عربوں”کا ذکر کیا ہے-

دنیا کی دیگر اقوام کو اپنا حسب نسب یاد نہیں لیکن”عرب” دنیا کی واحد قوم تھی جسکو اپنا نسب نامہ مکمل یاد ہوتا تھا –

“اللّٰہ تعالٰی” نے” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کا انتخاب اسی نسل سے فرمایا جسکا”نسب” محفوظ ہے- پھر تمام “عرب” میں جو”افضل” قبیلہ تھا”یعنی قریش” اور پھر”قریش کی سب سے افضل شاخ”بنو ہاشم”سے”میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا انتخاب فرمایا (سبحان اللّٰہ)

2-عربوں” کی ذہانت بےداغ تھی-ان جیسے حافظے انسانی تاریخ میں خال خال ہی ملتے ہیں-

طویل قصیدوں کے “انمٹ نقوش”ایک مرتبہ سننے سے انکی یاد داشت میں ثبت ہو جایا کرتے تھے-

“اللّٰہ تعالٰی” نے اپنے”محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو ایسی مثالی حافظے والی قوم میں پیدا فرمایا تاکہ “دین کی حفاظت بہترین طریقے سے ہو-

3- “عربی زبان”جنت ” کی زبان ہے-مرنے کے بعد ہر انسان کی زبان”عربی” بن جاتی ہے- اسلام جب دین فطرت ٹھیرا تو اسکی زبان بھی فطری ہونی ضروری تھی-

4- تمام جہالتوں اور سفاکیوں کے باوجود کچھ”اعلی ترین انسانی جوہر”عرب” میں نا صرف باقی تھے بلکہ ان اوصاف کے حاملین کو ہی اس معاشرے میں معزز اور شریف سمجھا جاتا تھا-

جبکہ ان اوصاف کا اکثر غیر متوازن استعمال بھی ان میں رائج تھا٫ لیکن یوں کہنا بھی غلط نا ہوگا کہ انسانی بلندی کی”اعلیٰ اقدار ابھی ان میں باقی تھیں-ان جیسی”شجاعت پیش کرنے سے پوری دنیا قاصر تھی-

“لڑنا اور جنگ کرنا” ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا- کسی بھی مقصد کے لئے جان دے دینا ان کے لئے کوئ بات نہیں تھی-

صدیوں کی ریاضت سے اپنی “جنگی مہارت” کو انہوں نے مثال بنا لیا تھا-

سخاوت انکے ماتھے کا جھومر تھی-اگرچہ “عمومی خوشحالی” تو انہیں حاصل نہ تھی لیکن “مہمان نوازی” سے بڑھ کر کوئ خوبی انکی نگاہ میں نا تھی-“حاضر جوابی” اور” معاملہ فہمی “میں وہ ساری دنیا کو لاجواب کیے بیٹھے تھے-” غیرت و حمیت “جو کسی بھی قوم کی بقا کا سب سے بڑا سبب ہوتی ہے وہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی- باہمی جنگوں کے فخریہ تذکرے اس جذبے میں پائ جانے والی انکی شدت کی بہترین عکاسی کرتے ہیں-مافی الضمیر کا اعلیٰ ترین اظہار”جذبات واحساسات کی سچی اور زندہ منظرکشی” انہیں کا طرہء امتیاز تھا-اس میدان میں وہ “بلا شرکتِ غیرے” اور “بلا مقابلہ شہسوار” تھے- قانون فطرت یہی ہے کہ۔ حکمرانی اسی قوم کو ملتی ہے جس کے اندر یہ اعلیٰ صفات موجود ہوں-

“اللّٰہ تعالٰی” نے ایسی “اعلیٰ صفات والی” اور “بلند اخلاق والی” قوم کے اندراپنے “آخری پیغمبر”حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم” کو مبعوث فرمایا٫ تاکہ دنیا میں” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا پیغام بہتر طریقے سے پھیلے اور فاتح قوم کی صفات”مغلوب اقوام اپنے اندر پیدا کرے-

5- جدید تمدن سے دوری کے باعث”سادگی٫ جفاکشی اور صاف گوئی” عربوں کے امتیازی اوصاف شمار ہوتے ہیں-زندگی کی رعنائیوں٫ نزاکتوں٫لطافتوں اور طرز زندگی کی بناوٹوں سے کوسوں دور”عرب ” کسی بھی” سچے پیغام” کی خاطر اپنا تن٫ من٫ دھن قربان کرنے کی راہ میں سوائے” قبول کرنے” کے معمولی رکاوٹ بھی نہ رکھتے تھے- ظاہر ہے سادگی محنت اور جفاکشی ہی انسانوں کو ترقی اور اعزاز عطاء کرتی ہے-

“جزیرہ العرب کے انتخاب کی حکمتیں”

1-” بیت اللہ جو دنیا میں”اللّٰہ” کا پہلا گھر ہے٫ وہ” جزیرہ العرب” کے اندر “مکہء مکرمہ”میں واقع ہے-جس سے اس خطے کی اہمیت کو” چار چاند” لگ جاتے ہیں-

2-“جزیرہ العرب”کے انتخاب کا جائزہ لیا جائے تو”آپ صلی اللہ علیہ وسلم”کی بعثت کے لئے اس سے مناسب ترین خطہ کوئ ہو ہی نہیں سکتا تھا-اپنے محل وقوع کی وجہ سے”جزیرہ العرب”قدرت”کی حفاظت میں تھا- کسی بھی میلی نگاہ کے لئے اس خطے کی طرف دیکھنا اور اس پرصلح کے جھنڈے لہرانا کوئ آسان کام نہ تھا- یہی وجہ تھی کہ”روم اور فارس” کی عظیم سلطنتیں سرحدی علاقوں میں اپنی” ذیلی ریاستیں” قائم کرنے کے باوجود “قلب جزیرہ” پر حملہ کرنے کی کبھی جرات نہیں کر سکیں-“عربوں نے ہمیشہ”آزاد زندگی گزاری٫ غلامی اور محکومیت کبھی قبول نہیں کی-

3-“اللّٰہ تعالٰی”اپنے خلیل کی دعاؤں اور مناجات کو کیسے ٹالتا؟”امر الہی سے اپنے لخت جگر(صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کو اس دور دراز ویرانے میں بسانے کو “حکمتوں سے خالی یا محض اتفاق” سمجھنے والے”احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں-

“حضرت ابراہیم علیہ السلام” کی دعاؤں کی بدولت ہی” بنی اسمٰعیل” کی قسمت چمکی تھی-

“حضرت اسماعیل علیہ السلام” کا اس بیابان میں رہنا اور”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا”نسل اسماعیل علیہ السلام”سے ہونا اسی کا” منطقی نتیجہ” تھا جو کہ”40″پشتوں بعد”پیغمبر انقلاب” صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی صورت میں ظاہر ہونا تھا-

4-“امریکا و آسٹریلیا”کی دریافت میں ابھی صدیاں باقی تھیں-یہ دنیا صرف “3”براعظموں”یورپ٫ افریقہ اور ایشیا” پر مشتمل تھی-اس معلوم دنیا کی “قلب نما”جغرافیائی مرکزیت” اس” جزیرہ العرب” کو حاصل تھی-یہاں سے دنیا کے چاروں طرف” دین و سیاست” کو مساوی طور پر پھیلایا جاسکتا تھا-

5-بےتحاشا قبیلوں میں بٹی اس قوم میں سینکڑوں زبانوں کا رائج ہونا “فطرت” کا تسلسل تھا- لیکن اس کے باوجود “جزیرہ العرب”کا یہ عظیم رقبہ” فطری قانون” کے برعکس”لسانی وحدت” کی مظبوط زنجیر میں جکڑا ہوا تھا- اس خطے کے کسی بھی مقام پر اٹھنے والی آواز کا”آنا فانا پورے”جزیرہ العرب” میں پھیل جانا اس”لسانی وحدت” کا تقاضا تھا- یہی وجہ ہے کہ”اسلام کا پیغام بہت تیزی سے دنیا میں پھیلا-

“نسب نامہء” رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”

“نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے” نسب نامہ مبارک” کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے-

1- پہلا حصہ”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” سے لے کر عدنان تک ہے-اس حصے کی صحت پر”اہل سیرت” اور ماہرینِ انساب” کا اتفاق ہے-“حافظ ابن عبد البر القرطبی”اپنی کتاب “الاستیعاب” میں تحریر کرتے ہیں”ھذا ما کم یختلف فیہ احد من الناس”

2- دوسرا حصہ”عدنان سے اوپر” حضرت ابراہیم علیہ السلام” تک ہے- کئ “علماءِ تاریخ”و حدیث” نے “نسب نامے کے اس حصے کو بیان کیا ہے-امام بخاری٫ امام محمد بن اسحاق٫اور ابن جزیر” وغیرہ کے نزدیک”نسب نامے “کے اس حصے کو بیان کرنا جائز ہے-

3-تیسرا حصہ”حضرت ابراہیم علیہ السلام” سے لے کر”حضرت آدم علیہ السلام” تک ہے-اس حصے میں بیان کردہ”اسماء گرامی” تو صحیح ہیں لیکن انکی عمر وغیرہ کی تفصیلات مشکوک ہیں- چونکہ” نسب نامے” میں “صحت اسماء ہی درکار ہیں اس لئے ظن غالب یہی ہے کہ نسب نامے میں بیان کئے جانے والے تمام نام صحیح ہیں-

“نسب نامہء مبارک”صلی اللّٰہ علیہ وسلم”

1-“محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم٫بن عبداللہ٫ بن عبد المطلب( شیبہ الحمد) بن ہاشم(خاندان بنو ہاشم کے بانی) بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہد(ان کو قریش کا لقب ملا تھا) بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ( یہاں تک سب کا اتفاق ہے)

2-بن اود بن یمسیع بن سلاماں بن عوض بن بوز بن قمول بن ابئ بن عوار بن ناشد بن جزا بن بلداس بن یدلاف بن طابغ بن جاحم بن ناجش بن ماخی بن عیفی بن عبقر بن عبید بن دعا بن حمدان بن سنبر بن یثربی بن یحزن بن یلحن بن ارعوی بن ذیشان بن عیصر بن اقنادین بن ایہام بن مقصر بن ناحث بن زاح بن سمی بن مزی بن عوض بن عرام بن قیدار بن اسمٰعیل علیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام-

3-بن تارخ بن آذر بن ناخور بن ساروع بن ارغوا بن فالغ بن عابد بن افخشار بن سام بن نوح علیہ السلام بن لامک بن متشالخ بن ادریس علیہ السلام بن یارد بن مہلائل بن قینان بن آنوش بن شیث علیہ السلام بن “حضرت آدم علیہ السلام”- اس طرح پورے” شجرہء نسب”میں میرے” نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” سے لے کر “باوا آدم علیہ السلام” تک کل “80” نام ہوئے”علیہ و علیھم السلام-

( ختم شد”چھٹا سبق” الحمدللہ)

حوالہ: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کورس-

مرسلہ: خولہ بنت سلیمان- “الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین”-

اپنا تبصرہ بھیجیں