بغیر نوٹس دیے نوکری چھوڑنے پر ایک ماہ کی تنخواہ کاٹنا

جناب مفتی صاحب  

السلام علیکم

  • میں ایک اسکول چلاتاہوں ۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ٹیچرز کے لیٹ آنے پر تنخواہ کی کٹوتی  کی جاتی ہے ، تین دن  لیٹ آنے پرایک دن کی تنخواہ  کی کاٹ لی جاتی ہے ، یہ جائز ہے یانہیں ۔ یہ معاملات ٹیچرز کے ساتھ طے ہوتا ہے ۔
  • دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ٹیچرز کے ساتھ پہلے سے ہی معاہدہ کرلیتے ہیں کہ اگر آپ نے نوکری  چھوڑنی  ہوتو ایک ماہ کا تحریری  نوٹس دے دیں ،اچانک  نوکری چھوڑنے پر آخری مہینے کی تنخواہ نہیں دی جائے گی ، کیا یہ جائز صورت ہے ۔ آگاہ کریں ۔

شکریہ

  • اسکول کی منتخب کردہ کتابوں کوفروخت  کرنے والے ایک اسٹور سے منافع  لینا کیسا ہے۔ یعنی  comimision۔ والدین کوہم مخصوص بک اسٹور کوRecommend کرتے ہیں  جبکہ مکمل  پابند نہیں کرتے والدین  کسی بھی دوسرے  بک اسٹور سے بھی کتابیں  خرید سکتے ہیں۔

الجواب حامداومصلیاً

  • واضح رہے  کہ تین دن لیٹ  آنے کی صورت  میں اسکول  انتظامیہ  اساتذہ  کی تنخواہوں سے صرف ان اوقات  کی تنخواہ کاٹ سکتی ہے جن میں وہ کام  پرحاضر نہ تھے ،اس سے زائد کاٹنا جائز نہیں ہے،  کیونکہ  یہ تعزیر مالی ہے جوراجح  قول کے مطابق جائز نہیں،  البتہ  بروقت حاضری  یقینی بنانے کے لیے  اگر اسکول  انتظامیہ  اور اساتذہ  کے درمیان  اس طرح کا  معاہدہ ہوجائے کہ اگر کوئی استاد ایک مہینے  میں تین دن (مثلاً) تاخیر سے  آئے گا، تواس مہینے کے بعد جوآنے والا مہینہ ہے اس میں استاد کی تنخواہ ایک ہزار (مثلاً) کم ہوجائے گی ، تواس کی گنجائش ہے بشرطیکہ  دونوں فریق اس پر راضی  ہوں۔ (مأخذہ  التبویب  ۱۶۹۵/بتصرف )

الدرالمختار  وحاشیة ابن عابدین  (ردالمحتار ) (۴/۴۱)

دررالحکام فی شرح  مجلة الأحکام (۱/۴۵۴)

  • صورت مسئولہ میں ٹیچرز نے جتنے دن کام کیا ہوااتنے دن کی تنخواہ دینا آپ پر شرعاً لازم ہے۔ لہذا کسی ٹیچرز کے نوٹس  دیے  بغیر  نوکری  چھوڑنے  پر آپ کا آخری مہینے  کی تنخواہ کاٹ لینا شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ اس کے متبادل کے طور پر  یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ شروع  میں ہی  ٹیچرز سے اس بات کا معاہدہ کرلیا جائے  کہ ملازمت  ترک  کرنے سے ایک ماہ پہلے اطلاع دینی ہوگی، ورنہ  اطلاع کے ایک ماہ بعد  تک اصالۃ ً یانیابۃ ً کام کرنا لازم ہوگا، اس صورت  میں یہ ”لاضررولاضرار“کے قاعدہ  کے تحت داخل ہوجائے گا ۔(کذا فی التبویب  :۸۰۳/۳۳)

سنن ابن ماجه (۲/۷۸۴)

  • صورت مسئولہ میں اگر کتابیں دکاندارکی ملکیت ہیں اور وہ اسکول کے کورس کی کتابیں  خود خرید  کر آگے فروخت  کرتا ہے ،اوراسکول والے صرف  گاہک مہیا کرنے پراس سے کمیشن  وصول کرتے  ہیں تو اس طرح  دکاندار سے کمیشن  وصول کرنا  ان شرائط کے ساتھ جائز ہے کہ گاہکوں کے ساتھ کوئی دھوکہ  نہ ہو ، کمیشن  پہلے سے طے ہو، طے کیے بغیر  کمیشن لینا جائز نہیں ہے ، نیز بازاری  ریٹ  اور معیار  کےمطابق کورس فروخت  کیاجائے اور بچوں  کے والدین اسی دکاندار سے کورس خریدنے پر مجبور نہ ہوں ۔(ماخذہ التبویب  بتصرف :۱۳۷۳/۲۲)

الدر المختار  وحاشیة ابن عابدین  (ردالمحتار ) (۴/۴۳)

مطلب فی أجرۃ الدلال (تتمة)

قال فی التتارخانیة: وفی  الدلال والسمسار یجب  أجر  المثل، وما تواضعوا علیه أن فی کل عشرۃ دنانیر  کذا فذاک  حرام علیھم ،وفی الحاوي: سئل  محمد بن سلمة عن أجرۃ السمسار،فقال  :أرجوا أنه لابأس به وإن  کان فی الأصل  فاسدا لکثرۃ التعامل  وکثیرۃ من ھذا  غیر جائز، فجوزوہ  لحاجة الناس إلیه کدخول الحمام ۔۔۔۔۔۔۔والله سبحانه وتعالیٰ اعلم

محمد ہارون خان عفااللہ عنه

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

۴/شعبان ۱۴۴۰ھ

۱۰/اپریل  2019ع

الجواب صحیح  

احقر محمود اشرف عفا اللہ

مفتی جامعہ دارالعلوم کراچی  

۵/شعبان /۱۴۴۰ھ

۱۱اپریل  ۲۰۱۹ع

محمد یعقوب عفااللہ عنه

عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/1053737848328793/

اپنا تبصرہ بھیجیں