بوقت ضرورت جھوٹ بولنا

سوال:باجی جان میرے ساتھ ایک مسٸلہ ہے کہ میں کسی کے گھر کا دودھ اور چاۓ نہیں پی سکتی دل متلی ہوتا ہے صرف اپنے گھر کے دودھ کی اور اپنے ہاتھ سے پکی ہوٸ چائے پی سکتی ہوں باجی جان اس لیے میں اگر کسی کے گھر جاٶں تو مجھے جھوٹ بولنا پڑتا ہے کہ میں چائے نہیں پیتی باجی جان کیا اس سے مجھے گناہ ہوگا جھوٹ بولنے کا۔

الجواب باسم ملہم الصواب

جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے لہذا جھوٹ سے بچنا ضروری ہے ۔ البتہ بوقت ضرورت “توریہ” اور “تعریض” یعنی ذو معنی بات کرنے کی گنجائش ہے اسلئے صورتِ مسئولہ میں آپ یوں کہہ سکتی ہیں کہ میرا اس وقت چاۓ پینے کو دل نہیں کر رہا یا میں گھر سے چائے پی کر آئی ہوں وغیرہ۔

—————————————————

حوالہ جات :

 احادیث مبارکہ سے:

1۔إِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ 

(الصحیح البخاری:2094)

ترجمہ۔۔۔۔جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ آگ کی طرف لے جاتے ہیں۔

2۔آية المنافق ثلاث وإن صام وصلى وزعم أنه مسلم: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان”.

( الصحيح البخاری 33)

 ترجمہ: منافق کی تین نشانیاں ہیں، اگر چہ وہ روزہ رکھے نماز پڑھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے ۔ جب بولے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ، جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔

——————————————————-

کتب فقہ سے :

’1۔ أعلم أن الكذب وإن كان أصله محرما، فيجوز في بعض الأحوال بشروط قد أوضحتها في كتاب الأذكار ومختصر ذلك أن الكلام وسيلة إلى المقاصد فكل مقصود محمود يمكن تحصيله بغير الكذب يحرم الكذب فيه وإن لم يمكن تحصيله إلا بالكذب جاز الكذب ثم إن كان تحصيل ذلك المقصود مباحا كان الكذب مباحا وإن كان واجبا كان الكذب واجبا فإذا اختفى مسلم من ظالم يريد قتله أو أخذ ماله وأخفى ماله وسئل إنسان عنه وجب الكذب بإخفائه، وكذا لو كان عنده وديعة، وأراد ظالم أخذها وجب الكذب بإخفائها والأحوط في هذا كله أن يوري ومعنى التورية: أن يقصد بعبارته مقصودا صحيحا ليس هو كاذبا بالنسبة إليه وإن كان كاذبا في ظاهر اللفظ وبالنسبة إلى ما يفهمه المخاطب ولو ترك التورية وأطلق عبارة الكذب فليس بحرام في هذا الحال واستدل العلماء بجواز الكذب في هذا الحال بحديث أم كلثوم رضي الله عنها أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ليس الكذاب الذي يُصلح بين الناس فَيَنْمِي خيرًا، أو يقول خيرًا» وفي رواية مسلم زيادة، قالت: ولم أسمعه يُرَخِّصُ في شيء مما يقوله الناس إلا في ثلاث، تعني: الحرب، والإصلاح بين الناس، وحديث الرجل امرأته، وحديث المرأة زوجها.

متفق علیہ۔۔

(باب بیان ما یجوز من الکذب، ریاض الصالحین181/6)

ترجمہ : جان لیں کہ جھوٹ اگرچہ اس کی اصل حرام ہے، مگر بعض حالات میں چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بات چیت مقاصد (کے حصول تک) کا وسیلہ ہے۔ لہٰذا ہر وہ اچھا مقصد جس کا حصول بغیر جھوٹ کے ممکن ہو وہاں جھوٹ بولنا حرام ہے۔ اگر اس کا حصول بغیر جھوٹ کے ممکن ہی نہ ہوتو وہاں جھوٹ بولنا جائز ہے۔ پھر اگر اس مقصد کا حاصل کرنا ’’مباح‘‘ ہے تو جھوٹ بولنا بھی مباح کے درجے میں ہے۔ اگر اس کا حصول واجب ہے تو جھوٹ بولنا بھی واجب کے درجے میں ہے ۔ چنانچہ جب ایک مسلمان کسی ایسے ظالم سے چھپ جائے، جو اس کا قتل کرنا چاہتا ہے یا پھر اس کا مال چھیننا چاہتا ہے اور اس نے اس مال کو چھپا کر کہیں رکھ دیا ہو پھر ایک شخص سےاس حوالے سے سوال کیا جاتا ہے (کہ وہ شخص یا مال کہاں ہے؟) تو یہاں اس (شخص یا مال) کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے۔ اسی طرح کسی کے پاس امانت رکھی ہوئی ہو ایک ظالم شخص اس کو غصب کرنا چاہتا ہے تو یہاں بھی اس کو چھپانے کےلیےجھوٹ بولنا واجب ہے۔ زیادہ محتاط طریقہ یہ ہے کہ ان صورتوں میں ’’توریہ ‘‘ اختیار کیا جائے۔ توریہ کا مطلب یہ ہے کہ (بولنے والا شخص) اپنے الفاظ سےایسے درست مقصود کا ارادہ کرے، جو اس کے لحاظ سے جھوٹ نہ ہو اگرچہ ظاہری الفاظ اور مخاطب کی سمجھ کے اعتبار سے وہ جھوٹ ہو۔ اگر وہ شخص ’’توریہ‘‘ سے کام لینے کے بجائے صراحتاً جھوٹ بھی بولتا ہے، تویہ ان صورتوں میں حرام نہیں ہے ۔اور استدلال کیا ہے علماء کرام نے ایسی صورتحال میں حدیث ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا سے انہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوۓ سنا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں میں صلح کرواۓ اور اس سے اس کی نیت خیر کی ہو یا وہ بھلی بات کہے۔۔

مسلم شریف کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ “میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی بات نہیں سنی جس سے ثابت ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی بات کی اجازت دی ہے جس کو لوگ جھوٹ کہتے ہیں ما سوا تین باتوں کے یعنی حالتِ جنگ میں، لوگوں میں صلح صفائی کے لیے اور میاں بیوی کی آپس کی بات چیت کے دوران۔ (یعنی ان صورتوں میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے۔)  

واللہ اعلم بالصواب

8جنوری 2022

5 جمادی الثانی1443

اپنا تبصرہ بھیجیں