دھوکہ اور جھوٹ

سوال:-اسلام علیکم!

اسلام میں دھوکا دینے والے انسان کی لیے کیا سزا ہے ۔ 

اور اگر کوئی کسی مجبوری میں جھوٹ بول دیا؟

الجواب حامدۃ و مصلیہ 

1:-دھوکہ دینے والے انسان کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ایسا شخص ہماری جماعت میں سے نہیں ہے,اور اس سے بڑی سزا ایک مسلمان کے لیے اور کیا ہو سکتی ہے

2:-جھوٹ بولنے والے پر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں لعنت فرمائی ہے.

3:-البتہ ضرورت کے وقت جھوٹ بولنا بھی جائز ہے بشرطیکہ سچ بولنے سے کسی ایسے گناہ یا نقصان کا اندیشہ ہو جو جھوٹ کے گناہ ونقصان سے زیادہ ہے مثلا دومسلمانوں میں صلح کرادینے یاجہاد میں دشمن کو دھوکہ دینے یا بیوی کو رضامند اور خوش کرنے کے لیے جھوٹ بول دینے کی حدیث میں اجازت آئی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں میں عداوت اور رنج رہنے سے جو برا نتیجہ پیدا ہوگا وہ جھوٹ کے نقصان سے بڑھا ہوا ہے اس طرح جنگ کے راز پوشیدہ رکھنا ضروری ہے کیونکہ اگر دشمن کو اطلاع ہوئی اس کو حملے کا موقع ملے گا اور ہزاروں پاک جانیں تلف ہو جائیں گی اس لیے اصل بات کا ظاہر نہ کرنا اور جھوٹی بات بنادینا افضل ہوا اسی طرح خاوند کے بعض اسرار بیوی سے مخفی رہنے کے قابل ہیں پس اگر راست گوئی کے سبب کوئی خیال اس پر ظاہر ہوگیا اور میاں بیوی میں نااتفاقی ہوگئی تو جو برااثر پیدا ہوگا اس میں جھوٹ بولنے کی بہ نسبت زیادہ گناہ ہے۔ پس ایسی صورت میں جھوٹ بولنے کی اجازت ایسی ہے جیسے کوئی شخص دو بلاؤں میں مبتلا ہوجائے تو آسان اور ہلکی مصیبت کو ترجیح دے کر اختیار کر لیتا ہے اس کی مثال ایسی سمجھو کہ جیسے کسی شخص کے بھوکا مرجانے کا اندیشہ ہوتو اس کے لیے مردار بھی حلال ہے اسی طرح اپنا یا اپنے مسلمان بھائی کا مال ظالم کے ہاتھ سے بچانے کو یا کسی کی خفیہ رکھی ہوئی امانت کو محفوظ رکھنے کے لیے دوسروں کے سامنے انکار کر دینا اور جھوٹ بول دینا جائز ہے اور اپنی معصیت کا انکار کردینا بھی اسی وجہ سے جائز ہے کہ فسق و فجور کا اعلان حرام ہے یا اپنی بیوی سے یہ کہہ دینا کہ میری دوسری بیوی تمہاری سوکن مجھے تم سے زیادہ پیاری نہیں یہ سب باتیں اس بنا پر جائز ہیں کہ اس جھوٹ سے ایک ضرر دفع ہوگیا ہے۔

ضرورت اس کو کہیں گے جب تک حالت ِ اضطرار اور کسی بڑے نقصان کا غالب گمان نہ ہو اس وقت تک مردار کا کھانا حلال نہیں ہے ایسے ہی جھوٹ بولنا شرعا حرام ہے وہ بھی جائز نہیں ہے۔

ضرورت پر بھی توریہ ( ایسی بات جو حقیقت میں سچی ہو اور اوپر سے کچھ دوسری معلوم ہوتی ہو )کرنا چاہیے نہ کہ صاف جھوٹ.

عن أبي بکر الصدیقؓ عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، قال: لا یدخل الجنۃ خب، و لابخیل، ولا منان۔

وعن أبي ہریرۃؓ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: المؤمن غر کریم، والفاجر خب لئیم۔ (ترمذي، باب ما جاء في البخیل، النسخۃ الہندیۃ ۲/۱۷، دارالسلام رقم:۱۹۶۳-۱۹۶۴)

قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم من غشنا فلیس منا.

( مسلم شریف حدیث نمبر۱۴۶ )

{ فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ } – ( آل عمران : 61 )

– خرَجْنا نريدُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّم، ومعنا وائلُ بنُ حُجرٍ، فأخذَهُ عدوٌّ لَهُ فتحرَّجَ القومُ أن يحلِفوا، وحلَفتُ أنَّهُ أخي فخلَّى سبيلَهُ، فأتَينا رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّم، فأخبرتُهُ أنَّ القومَ تحرَّجوا أن يحلِفوا، وحلفتُ أنَّهُ أخي، قال صدقتَ المسلمُ أخو المسلمِ

الراوي : سويد بن حنظلة | المحدث :الألباني | المصدر : صحيح أبي داود

الصفحة أو الرقم: 3256 | خلاصة حكم المحدث : صحيح 

‘والمرادبالکذب الکذب صورة لاحقیقة فیؤل ذلک بانہ کذب بالنسبة الی فہم السامعین امافی نفس الامر فلا”…(حاشیة بخاری:٤٧٤/١)

”قال علیہ الصلوة والسلام کل کذب مکتوب لامحالہ الاثلاثة الرجل مع امرء تہ اوولدہ والرجل یصلح بین اثنین والحرب فان الحرب خدعة قال الطحاوی وغیرہ ہومحمول علی المعاریض لان عین الکذب حرام قلت وہوالحق ”…(فتاویٰ شامی:٣٠٣/٣)

واللہ اعلم بالصواب 

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

27 رجب المرجب 1439ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں