حج بدل کے احکام

 اگر کسی شخص پر حج فرض ہو اور وہ معذور نہ ہو، تو خود پر حج کرنا فرض ہے اگر کسی دوسرے کو بغیر عذر حج میں بھیجا تو اس کا حج ادا نہ ہوگا بلکہ نفل ہوجائےگا البتہ معذور کے لےے شریعت مطہرہ نے سہولت دی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے عذر یا مرض میں مبتلا ہے کہ حج کرنا ، یا سواری پر بیٹھ کر اعمال حج کرنا ممکن نہ ہو نیز اس مرض و عذر کے اچھا ہونے کی قطعی کوئی امید نہ ہو، بلکہ تادم موت اس مرض کے باقی رہنے اور صحت نہ ہونے کا یقین ہو تو وہ اپنی جگہ کسی دوسرے کو حج کے لےے بھیج سکتا ہے۔ اسے حج بدل کہتے ہیں۔
لہٰذا کوئی شخص نابینا ہو، خواہ کوئی لے جانے والا ہو یا جس کے آنکھ کی روشنی ختم ہوچکی ہو یا اپاہج و مفلوج ہو یا ایسا پرانا مرض جس سے صحت یاب ہونے کی قطعی کوئی امید نہ ہو یا وہ شخص جس کے دونوں پاؤں کٹے ہوئے ہوں یا ایک پاؤں، یا دونوں ہاتھ کٹے ہوئے ہوں، اس طرح ایسا کمزور بوڑھا جو سواری پر بیٹھ نہیں سکتا اور بغیر تکلیف و مشقت کے ٹھہر نہیں سکتا ایسے معذور حضرات کے لےے جائز ہے کہ حج خود کرنے کی بجائے دوسروں سے حج بدل کرائیں اور اگر حج بدل نہ کراسکیں تو مرتے وقت اس کے لیے وصیت کرنا واجب ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ، ج ٢ ص ٦٤)
مسئلہ نمبر ٢: اگر کسی شخص پر حج فرض تھا مگر اس نے عذر و بیماری یا بغیر عذر کے حج نہیں کیا تو اس پر حج کی وصیت کرنا واجب ہے، اس کے مرنے کے بعد اس کے تہائی (1/3)مال سے حج بدل کرانا ورثاء پر واجب ہوگا۔
اگر تہائی مال حج بدل کے لےے کافی نہ ہو اور میت کے ورثاء تہائی سے زائد شامل کرنے پر رضا مند نہ ہو، تو جہاں سے تہائی مال سے حج ہوجاتا ہو وہاں سے حج کرادیں مثلاً جدہ سے حج کراسکیں اتنا ہی مال ہے تو وہاں سے کرادیں یا مکہ سے حج کرادیں۔ (شامی ج ٢ ص ٥٨)
اور اگر بالغ ورثاء اپنی طرف سے باقی مال ملا کر مرحوم کے وطن سے حج کرادیں تو بہتر ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں