الحاد کی تاریخ

الحاد دوسری قسط :

شروع ہی سے مذہب کے ساتھ الحاد بھی تمام معاشروں میں رہا ہے لیکن یہ تاریخ میں کبھی بھی قوت نہ پکڑ سکا۔ دنیا بھر میں یا تو انبیاءکرام علیہم الصلوٰة والسلام کے متبعین’ ایک اللہ کو رب ماننے والے غالب رہے یا پھر شرک کا غلبہ رہا۔چند مشہور فلسفیوں اور ان کے معتقدین کو چھوڑ کر تاریخ میں انسانوں کی اکثریت ایک یا کئی خداؤں کے وجود کی بہرحال قائل رہی ہے۔ پہلے زمانے میں مذہب کے مقابلے میں الحاد و دہریت کا پھیلاؤ اس لیے بھی کم رہا کہ انبیاءکرام اللہ تعالیٰ کے پیغام کی تبلیغ کیا کرتے تھے جب کہ ملحد الحاد کے کبھی داعی نہیں رہے۔

جدیدالحاد کا نقطہ آغاز:

لیکن انیسویں صدی میں جب چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاءکو قبولِ عام حاصل ہوا توگویا الحاد نے ایک مذہب کی صورت اختیار کر لی  جس کا پیغمبرڈارون تھا اور اس کا نظریہ اس مذہب کا دیباچہ۔ بس کیا تھا اس صدی میں لاکھوں لوگ جن میں اکثریت تعلیم یافتہ افراد کی تھی، مذہب سے بیگانہ ہو کر ملحد ہو گئے۔

پھر ان افراد نے نظریہ ارتقاءکی باقاعدہ تبلیغ کرنا شروع کردی اور اس کے اثرات عالمگیر سطح پر پڑے۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاءمیں الحاد کے نظریاتی اور فلسفیانہ پہلواہم تھے جس نے خصوصاً الہامی ادیان کے بنیادی عقائد یعنی وجود باری تعالیٰ، رسالت اورعقیدہ آخرت پر حملہ کیا۔

الحاد کی فتوحات:

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فکری اور نظریاتی میدان میں الحاد اسلام کے مقابلے میں کلیتاًناکام رہا البتہ عیسائیت کے مقابلے میں اسے جزوی فتح حاصل ہوئی…لیکن سیاسی، معاشی اورمعاشرتی میدانوں میں الحاد کو مغربی اور مسلم دنیا میں بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔ 

سیاسی فتوحات:

سیاسی میدان میں الحاد کی سب سے بڑی کامیابی سیکولر ازم کا فروغ ہے۔ پوری مغربی دنیا اور مسلم دنیا کے بڑے حصے نے سیکولر ازم کو اختیار کرلیاہے۔

سیکولر ازم کا مطلب ہی یہ ہے کہ مذہب کو مسجد تک محدود کردیا جائے اور کاروبار زندگی کو خالصتاً انسانی عقل کی بنیاد پر چلایا جائے جس میں مذہبی تعلیمات کا کوئی حصہ نہ ہو۔

مغربی دنیا نے تو سیکولر ازم کو پوری طرح قبول کر لیا اور اب اس کی حیثیت ان کے ہاں ایک مسلمہ نظریہ کی ہے۔ انہوں نے اپنے مذہب کو گرجے کے اندر محدود کرکے کاروبار حیات کو مکمل طور پر سیکولر کر لیا ہے۔ ان کی اتباع میں مسلمانوں کی اشرافیہ بھی الحاد کے اثرات کو قبول کرنے لگی اور آخر کاربہت سے اسلامی ممالک نے سیکولر ازم کو بطور نظامِ حکومت کے قبول کرلیا۔ بعض ممالک جیسے ترکی اور تیونس نے تو اسے کھلم کھلا اپنانے کا اعلان کیا لیکن مسلم ممالک کی اکثریت نے سیکولر ازم اور اسلام کا ایک ملغوبہ تیار کرنے کی کوشش کی جس میں بالعموم غالب عنصر سیکولر ازم کا ہی رہا۔

معاشی فتوحات: 

معاشی میدان میں کارل مارکس کی اشتراکیت یا کمیونزم وہ نظریہ تھا، جس نے الحادکے ڈھانچے میں نئی جان ڈال دی۔ مارکس اور اس کا ساتھی فریڈرک اینجلز، جو بہت بڑا ملحد فلسفی تھا،کے مشترکہ نظریے نے کمیونسٹ انقلاب برپا کیا، جس نے یکلخت ملحدوں کی تعداد لاکھوں کے ہندسے سے نکال کر کروڑوں تک پہنچا دی۔ لیکن اس زبردست کامیابی کے بعد بھی الحاد کا زور ابھی تک مخصوص خطوں میں تھا۔ کچھ یورپی ممالک جہاں نظریہ ارتقاءبہت مقبول ہوا، اور روس و چین جہاں کمیونزم کی وجہ سے دہریت پھیلی، باقی متمدن دنیا میں اور خصوصاًمسلم دنیا میں اس کے اثرات نہ ہونے کے برابر رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں