امام کے پیچھے قرأت کا حکم

سوال: مقتدی پہلی اور دوسری رکعت میں تو خاموشی سے سنتے ہیں فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت کا کیا حکم ہے کیا مقتدی سورت فاتحہ پڑھیں گے؟

الجواب باسم ملهم الصواب!

واضح رہے کہ احادیث کی رو سے امام کی قرأت مقتدی کے لیے کافی ہوتی ہے لہذا جس طرح پہلی اور دوسری رکعت میں امام کی قرأت مقتدی کی طرف سے کافی ہوتی ہے اسی طریقے سے تیسری اور چوتھی رکعت میں بھی امام کی قرأت کافی ہے پس مقتدی کو سورت فاتحہ یا کوئی اور سورت پڑھنے کی ضرورت نہیں۔

حوالہ جات

1)قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان له امام فقراءة الامام له قراءة

(مؤطا لامام محمد:125)

ترجمه: رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے لیے امام ہوتو امام کی قرأت اس کے لیے کافی ہوگی ۔(یعنی علیحدہ سےضرورت نہیں)

2)عن حيطان بن عبدالله الرقاشى قال صليت مع ابى موسى الاشعرى ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبنا فبين لنا سنتنا وعلمنا صلوتنا فقال: اذا صليتم فاقيموا صفوفكم ثم ليؤمكم احدكم فاذا كبر فكبروا واذا قرأ فانصتوا.

(صحيح مسلم: 174/1)

ترجمه: حیطان بن عبداللہ الرقاشی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا ہمارے لیے سنتیں بیان فرمائیں اور ہمیں نماز سکھلائی پس آپ نے فرمایا کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنی صفیں سیدھی کرلو پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرات کرے تو تم تم خاموش رہو۔

3)(والمؤتم لا يقرأ مطلقا) ولا الفاتحة فى السرية اتفاقا وما نسب لمحمد ضعيف كما بسطه الكمال (فان قرأ كره تحريما) وتصح فى الاصح.

(رد المحتار على الدر المختار: 326/2)

4)قال الشعبى رحمه الله: ادركت سبعين بدريا كلهم يمنعون المقتدى عن القراءة خاف الامام.

(روح المعانى: 152/9)

والله سبحانه وتعالى اعلم

4/7/1443

5/2/22

اپنا تبصرہ بھیجیں