اصلاحی کہانیاں لکھنےکاحکم

اصلاحی کہانیاں لکھی جاسکتی ہیں کیونکہ کہانیوں میں کافی خیالی باتیں ہوتی ہیں

الجواب:

ایسی کہانیاں جو نصیحت پر مشتمل ہوں ، یا ان میں مزاح کا پہلو ہو اس کے ساتھ حکمت وموعظت اور سبق آموز باتیں بھی ہوں؛ تو ایسی کہانیاں پڑھنا،لکھنا درست ہے،لیکن شرط یہ ہے کہ یہ تمام امور فرائض وواجبات، سنن وغیرہ غفلت کا سبب نہ بنیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: حکمت ودانائی کی باتیں مومن کے لیے متاعِ گمشدہ ہے، وہ جہاں مل جائے؛ تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔فی زماننا فحش لٹریچر کی بھرمار ہے جس سے نوجوان بچے،بچیاں متاثر ہو رہی ہیں ایسے میں اگر کوئی معاشرہ کے سدھار کے لیے قلم اٹھائے اور کہانی یا ناول کی شکل میں اس میں کسی برائی کی نشان دہی کرکے نامحسوس طریقے سے اس کی اصلاح کرے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔بلکہ یہ طریقہ بہتر ہے کہ عوام الناس قصے،کہانی سے بات زیادہ دلچسپی سے سمجھ لیتے ہیں۔

وحجۃ علی ما قلنا حديث أم زرع رواه البخاري ومسلم عن عائشة رضي الله عنها۔

قال التھانوي في أحکام القرآن (۳: ۲۰۰، ۲۰۱):وفذلکة الکلام أن اللھو علی أنواع؛ لھو مجرد، ولھو فیہ نفع وفائدة ولکن ورد الشرع بالنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد فی الشرع نھي صریح عنہ ولکنہ ثبت بالتجربة أنہ یکون ضررہ أعظم من نفعہ ملتحق بالمنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولم یغلب علی نفعہ ضررہ ولکن یشتغل فیہ بقصد التلھي،ولھو فیہ فائدة مقصودة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولیس فیہ مفسدة دینیة واشتغل بہ علی غرض صحیح لتحصیل الفائدة المطوبة لا بقصد التلھي، فھذہ خمسة أنواع، لا جائز فیھا إلا الأخیر الخامس فھو أیضاً لیس من إباحة اللھو في شییٴ؛بل إباحة ما کان لھواً صورة ثم خرج عن اللھویة بقصد صالح وغرض صحیح فلم یبق لھوا اھ

اپنا تبصرہ بھیجیں