جدید ٹیکنالوجی کے دورمیں عدت کی مدت

سوال: بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پرانے زمانے میں عورت کو عدت پوری کرنے کا حکم صرف اس لیے ہے تھا کیونکہ اس دور میں ٹیکنالوجی نہیں تھی اور نہ ہی میڈیکل نے اتنی ترقی کی تھی کہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ عورت حمل سے ہے یا نہیں جبکہ موجودہ دور میں میڈیکل نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ یہ جلدی پتا لگایا جا سکتا ہے اسی لیے اب عورت کو عدت پوری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
اس بارے میں صحیح رائے کیا ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ عدت گزارنے کا مقصد صرف رحم اور بچہ دانی کی صفائی ہی نہیں، بلکہ رحم کی صفائی کے ساتھ ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ یہ اللہ تعالٰی کا حکم ہے۔اوردوسرا مقصد ر شتۂ نکاح ختم ہونے پر سوگ کا اظہار ہے۔
لہذا عورت مطلقہ ہو یا بیوہ، حاملہ ہو یا غیر حاملہ، حیض آتا ہو یا نہ آتا ہو ان تمام صورتوں میں عدت کی مدت پوری کرنا اور عدت کی تمام تر پابندیوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔
===================
حوالہ جات۔
1۔ وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا۔ (سورةالطلاق : 4:65)
ترجمہ: اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہوگی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے

2.وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ. (سورة البقرة 2:234)

ترجمہ۔ اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔

3۔والعدة واجبة من یوم الطلاق ویوم الموت، وذلک لقول اللہ تعالی: ”والمطلقات یتربصن بأنفہسن ثلاثة قروء إلخ“ (شرح مختصر الطحاوي، باب العدد والاستبراء، ۵/۲۴۸) 

واللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

28 صفر 1444ھ
26 ستمبر 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں