جنبی یا محدث کا غسل کے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پانی کا حکم

سوال: اگر ٹب یا بالٹی کے پانی میں سے غسل کرنا ہو تو کیا یہ بات صحیح ہے کہ غسل کے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پانی ناپاک ہو جاتا ہے؟ جبکہ روزمرہ کے کاموں میں ایک حائضہ کا آٹا گوندھنا،گھر کے کپڑے دھونا اور اس طرح کے کئی دوسرے کام جن میں پانی میں ہاتھ ڈالنا ہوتا ہے تو اس صورت میں وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا؟

الجواب باسم ملھم الصواب
اگر ہاتھ پرظاہری کوئی نجاست نہیں تو غسل کے لیے پانی لینے سے برتن کا باقی پانی ناپاک نہیں ہوگا۔
======================
حوالہ جات:

1۔إذا أدخل المحدث أو الجنب أو الحائض التي طهرت يده في الماء للاغتراف لا يصير مستعملاً للضرورة. كذا في التبيين۔ وكذا إذا وقع الكوز في الحب فأدخل يده فيه إلى المرفق لإخراج الكوز لا يصير مستعملاً۔“
(فتاوی ھندیہ:24/1)

2۔”بأن يغسل بعض أعضائه أو يدخل يده أو رجله في حب لغير اغتراف ونحوه، فإنه يصير مستعملاً؛ لسقوط الفرض اتفاقاً۔

(قوله: لغير اغتراف) بل للتبرد أو غسل يده من طين أو عجين، فلو قصد الاغتراف ونحوه كاستخراج كوز لم يصر مستعملاً للضرورة“۔

(الدر المختار مع رد المحتار:389/1)

واللّٰہ اعلم بالصواب

15جمادی الاولی 1445ھ
30 نومبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں