جوانی سے نکاح تک

’’آٹھواں سبق“ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

”جوانی سے نکاح تک“

“پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی عمر مبارک جب “15” سال ہوئ تو”مکہء مکرمہ” میں جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا- ہوا یوں کہ “براض” نامی ایک شخص نے جسکا تعلق” قریش سے تھا٫ “قبیلہء بنی ہوازن”کے “3” آدمیوں کو قتل کر دیا- دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کو اسکا ذمہ دار ٹھہرایا- بڑھتے بڑھتے یہ تنازعہ اتنا بڑھا کہ ان میں جنگ کی نوبت آگئی- اسکی خبر” عکاظ”کے میلے تک پہنچ گئ جو سال میں ایک مرتبہ لگتا تھا٫ جس میں مشاعرے٫ گھوڑدوڑ٫ پہلوانوں کی کشتیاں اور فنون سپہ گری کے دنگل بھی ہوتے تھے-جب بات”عکاظ” پہنچی تو معاملہ اور بگڑا اور جنگ و جدال کا بازار گرم ہو گیا-

یہ لڑائ”حرمت والے ماہ “محرم یا ذیقعدہ” میں ہوئ تھی-اسی لئے اس جنگ کا نام” جنگ فجار” پڑ گیا- فجار کے معنی ہے “گناہ کا کام”- یہ لڑائ”4″ بڑی لڑائیوں کا ایک سلسلہ بن گئ-ہر لڑائ دوسری لڑائ سے زیادہ سخت تھی-“قبیلہء ہوازن”کے ساتھ” قیس عیلان” کے تمام قبائل مل گئے- ” قریش کے ساتھ کنانہ”کے تمام قبائل یکے بعد دیگرے شامل ہوتے گئے-پھر یہ لڑائ ترقی کر کے”قبائل قیس”اور قبائل کنانہ” کی لڑائ بن گئ- چوتھی اور آخری لڑائ نہایت سخت اور زبردست تھی٫جس میں بعض سرداروں نے اس لئے خود” اپنے پاؤں” میں بیڑیاں ڈالوائ تھیں کہ میدان جنگ سے کسی طرح بھاگ نہ سکیں-

اس آخری لڑائی  میں ” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”بھی مسلح ہو کر شریک ہوئے- چونکہ اس تنازعے میں” قریش” خود کو برسر حق سمجھتے تھے اور پھر خاندان کے ننگ و نام کا بھی مسئلہ تھا اس لئے” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” بھی اپنے چچاؤں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوئے-

“بنو کنانہ” میں ہر قبیلے کا سالار جدا تھا اس لئے “بنو ہاشم” کے سردار “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے چچا”زبیر بن عبد المطلب” اور ساری فوج کے سپہ سالار اعظم”حرب بن امیہ تھا-جو “امیر معاویہ کے دادا تھے-اس موقع پر “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا اٹھا کر دیتے جاتے تھے-بلآخر “بنو کنانہ”غالب اور”بنو قیس”مغلوب ہوئے-

”حلف الفضول“امن معاہدے میں شرکت“

معمولی معمولی باتوں پر لڑائیوں کا سلسلہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا جس نے سینکڑوں گھرانے برباد کر دیئے تھے-قتل و سفاکی” موروثی اخلاق” بن گئے تھے-” حرب الفجار” کے بعد بعض “صالح اور امن پسند” لوگوں میں اس بے معنی جنگ وجدال سے بیزاری پیدا ہوئ اور یہ خیال پیدا ہوا کہ جس طرح”زمانہء سابق” میں قتل و غارتگری اور ظلم و ستم کے انسداد کے لیے”فضل بن فضالہ٫ فضل بن وداع اور” فضل بن حارث” نے ایک معاہدہ ترتیب دیا تھا٫ جو انہی کے نام پر”حلف الفضول” کے نام سے مشہور ہوا تھا اسی طرح کا کوئ معاہدہ ترتیب دیا جائے-

جب یہ لوگ جنگ سے واپس پہنچے تو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کےچچا اور خاندان بنو ہاشم کے سردار”زبیر بن عبد المطلب” نے سب کے سامنے یہ تجویز پیش کی-چنانچہ” خاندان بنو ہاشم٫ بنو زہرہ اور” بنو تمیم جمع ہوئے”عبداللہ بن جدحان تیمی” کے گھر جو شرف میں ممتاز تھا وہاں یہ معاہدہ طے پایا-

1-ہم مظلوموں کا ساتھ دیں گے٫خواہ وہ کسی قبیلے کے ہوں٫ یہاں تک کہ انکا حق ادا کیا جائے-

2- ملک میں ہر طرح کا امن وامان قائم کرینگے-

3- مسافروں کی حفاظت کرینگے-

4- غریبوں کی امداد کرتے رہینگے-

5- کسی ظالم یا غاصب کو”مکہء مکرمہ” میں نہیں رہنے دینگے-

” نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” فرماتے ہیں کہ”اس معاہدے کے وقت میں بھی” عبد اللہ بن جدحان” کے گھر حاضر تھا-اس معاہدے کے مقابلے میں اگر مجھکو” سرخ اونٹ “بھی دئیے جاتے تو میں ہرگز پسند نہیں کرتا- اور اگر اب”زمانہء اسلام” میں بھی اس قسم کے معاہدے کی طرف بلایا جاؤں تو” میں”اس میں شرکت کو ضرور پسند کروں گا-“

اس معاہدے کا ایک سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ “زبید” کا ایک آدمی سامان لیکر “مکہ معظمہ” آیا اور”عاص بن وائل” نے اس سے سامان خریدا لیکن اس کا حق روک لیا-

اس نے حلیف قبائل “عبد الدار٫مخزوم٫جمع٫ سہم اور عدی”سے مدد کی درخواست کسی نے توجہ نہ دی- اس کے بعد اس نے “جبل بوقبیس”پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے جن میں اپنی مظلومیت کی داستان بیان کی-اس پر” زبیر بن عبد المطلب” نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار و مددگار کیوں ہے؟-انکی کوششوں سے ہی تمام قبائل جمع ہوئے٫پہلے معاہدہ لکھا اور طے کیا- پھر”عاص بن وائل” سے”زبیدی” کا حق دلا دیا-

”ملازمت و تجارت“

تمام انبیاء کرام علیہم السلام” کی طرح”میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے بھی بکریاں چرائیں٫ اور “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نےبچپن میں”بنو سعد” کی بکریاں بھی چرائیں٫اور” مکہ معظمہ”میں اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے عوض چرائ تھیں-بعد میں تجارت کی طرف منتقل ہو گئے تھے-

“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” “سائب بن یزید مخزومی” کے ساتھ تجارت کرتے تھے٫اور بہترین شریک تھے-نہ ہیر پھیر٫نہ کوئ جھگڑا- چنانچہ” سائب” “فتح مکہ”کے دن”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے پاس آئے تو” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے انہیں مرحبا کہا اور فرمایا”میرے بھائی میرے شریک کو مرحبا-(صحیح بخاری)

”ملک شام کا تجارتی سفر“

“حضرت خدیجہ بنت خویلد” مکہ کی ایک معزز اور مالدار خاتون تھیں- وہ لوگوں کو اپنا مال تجارت کے لئے دیتیں تھیں اور مضاربت کے اصول پر ایک حصہ طے کر لیتی تھیں-

جب انہیں”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی راست گوئ٫امانت داری اور “مکارم اخلاق” کا علم ہوا تو انھوں نے”اپنے غلام “میسرہ”کے ذریعے پیشکش کی کہ اگر”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ان کا مال لے کر” ملک شام” تشریف لے جائیں تو وہ دوسروں کو جو منافع دیتی ہیں اس سے زیادہ “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو دینگی-“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنے چچا سے مشورہ کر کے یہ پیشکش قبول کر لی اور ان کا مال تجارت لےکر انکے غلام “میسرہ” کے ساتھ” ملک شام” تشریف لے گئے-

“حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا” نے جاتے ہوئے “میسرہ “کو تاکید کی تھی کہ تم ان کا ہر حکم ماننا اور جو بھی حیرت انگیز بات دیکھو وہ مجھے آ کر بتانا-

”سفر شام“ میں معجزات اور برکات کا ظہور“

جب “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ملک شام پہنچے تو آرام کے لئے کسی ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا-وہاں قریب ہی ایک “راہب “کا عبادت خانہ تھا- اس کا نام” نسطورا” تھا- اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کبھی اپنے “عبادت خانے” سے باہر نہیں آتا -وہ باہر نکلا اور” میسرہ “سے پوچھا”یہ کون ہیں؟ “میسرہ” نے کہا”حرم میں رہنے والے ایک قریشی ہیں-“راہب”نے کہا اس درخت کے نیچے کسی “نبی “کے علاوہ کبھی کسی نے قیام نہیں کیا- اس کے علاؤہ “میسرہ” نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب دھوپ تیز ہوتی ہے تو “بادل”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” پر سایہ کر دیتے ہیں-

“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو”ملک شام” سے تجارت میں دگنا نفع بھی ہوا- جس کو لے کر”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” واپس ہوئے-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” مکہ پہنچے اور “حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا” کو ان کا مال حوالے کیا تو”حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا” نے بھی دیکھا کہ ان کو دگنا نفع ہوا ہے-

پھر ان کے”غلام میسرہ” نے”نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے شیریں اخلاق٫حسن معاملہ٫ بلند کرداری٫ راست گوئ٫امانت داری اور “موزوں انداز فکر” کے متعلق اپنے مشاہدات بیان کئے-راہب کا قول اور “بادلوں کا سایہ کرنا” سب بتایا تو” حضرت” خدیجہ رضی اللّٰہُ عنہ” کو لگا کہ ان کو اپنا گمشدہ” گوہر مطلوب” دستیاب ہو گیا ہے-“انہوں نے اپنے چچازاد بھائی”ورقہ بن نوفل” سے جو”عیسائ مذہب” کے اس وقت کے سب سے بڑے عالم تھے٫ ان باتوں کا ذکر کیا- “ورقہ” نے کہا” خدیجہ اگر یہ باتیں صحیح ہیں تو “محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم” اس امت کے نبی ہیں-اور مجھ کو آسمانی کتابوں سے معلوم ہوا ہے کہ اس امت میں ایک نبی آنے والا ہے جو”آخری نبی” ہوگا٫اور اس کا زمانہ یہی ہے-

”اماں خدیجہ رضی اللّٰہُ عنہا سے نکاح“

“حضرت خدیجہ بنت خویلد” مکہ کی مالدار ترین٫ خوبصورت٫خوب سیرت اور پاکباز بیوہ خاتون تھیں-“اپنی پاکبازی کی وجہ سے”طاہرہ کے لقب” سے مشہور تھیں-انکے پہلے دو نکاح ہو چکے تھے اور مکہ کے “بڑے بڑے سردار” ان سے شادی کے خواہشمند تھے-لیکن انھوں نے کسی کا پیغام منظور نہ کیا تھا ٫لیکن”امین و صادق”صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو دیکھنے اور پرکھنے اور انکے بارے میں” حیرت انگیز” اور” مثبت باتیں” سننے کے بعد اپنے دل کی بات اپنی سہیلی”نفیسہ بنت منبہ” سے کہی اور “نفیسہ” نے جاکر”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” سے گفت وشنید کی-

“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنے چچاؤں سے مشورے کے بعد اپنی رضامندی سے باقاعدہ شادی کا پیغام بھیجا جو منظور ہوا- نکاح”ابو طالب نے پڑھایا- مہر میں”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے “20”اونٹ دیئے٫اس طرح یہ شادی انجام پائ-اس وقت” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی عمر مبارک”25″سال اور “اماں خدیجہ رضی اللّٰہُ عنہا” کی عمر”40″ سال تھی-

“اماں خدیجہ رضی اللّٰہُ عنہا”نسب٫دولت اور “سوجھ بوجھ” کے لحاظ سے اپنی قوم کی سب سے” معزز خاتون تھیں- ان کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے انکی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی( ابنِ ہشام)

( ختم شد٫ آٹھواں سبق)

حوالہ: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کورس-

مرسلہ:خولہ بنت سلیمان-

“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین-

اپنا تبصرہ بھیجیں