جھاڑ پھونک کرنا کیا تقوی کے خلاف ہے؟

سوال:وہ حدیث جس میں بغیر حساب جنت میں داخلے کی خوشخبری دی گئی ہے اس کے مطابق جو دم، تعویذ گنڈے نہ کروائے ، آگ سے داغ نہ لگوائے وہ اس کے اہل ہوں گے۔،تو میں آپ کے مدارس کے نقطہ نظر کی روشنی میں جاننا چاہ رہی ہوں کہ کسی سے دعاء کے لئے کہنا،کسی کے لئے دعاء کرانا ،کسی سے کسی بیماری کی شفاء کی لئے دم کرانا اگرچہ جائز ہے مگر کیا واقعی یہ ناپسندیدہ اعمال ہیں؟ کیا واقعی یہ ایمان و توکل کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں؟

کیونکہ بقول ایک سعودی عالمہ کے کہ انسانوں سے طلب اگرچہ جائز امور میں سے ہے مگر تقوی کے اعلی معیار کے خلاف ہے۔

الجواب باسم ملھم الصواب

جواب سے پہلے توکل کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے۔

”توکل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ظاہری اسباب کو اختیار کر کے، اسباب پر بھروسا کرنے کی بجائے اللہ تعالی کی ذات پر بھروسا کرے کہ جب تک اس کی مشیت و ارادہ نہ ہوجائے کوئی کام نہیں ہوسکتا، آدمی کو توکل کرلینے کے بعد اس میں شک وشبہات میں نہ پڑنا چاہیے اس سے آدمی توکل کی خاص برکات سے محروم ہوجاتا ہے۔“

جس طرح بھوک مٹانے کےلیے کھانا کھانا اور پیاس بجھانے کےلیے پانی پینا توکل کے خلاف نہیں ہے،اسی طرح شریعت میں بیمار آدمی کےلیے اپنی بیماری کا علاج کروانا بھی توکل کے خلاف نہیں ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سید المتوکلین تھے،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی علاج فرما لیا کرتے تھے۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دم کرنا بھی ثابت ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ثابت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواب گاہ میں تشریف لے جاتے تو کچھ پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر دم کرتے تھے۔

لہذا قرآن کی آیتوں یا حدیث پاک میں موجود دعاؤں سے جھاڑ پھونک،دم دعا کرنا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ عقیدہ رکھا جائے کہ شفا دینے والی ذات صرف اللہ کی ذات ہے۔

رہی بات اس حدیث پاک کی کہ جس میں بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہونے والوں میں ان لوگوں کو شامل کیا گیا ہے کہ جو جھاڑ پھونک کے ذریعے علاج نہیں کرتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے ہر قسم کا جھاڑ پھونک مراد نہیں ہے؛ بلکہ اس سے زمانہ جاہلیت کا جھاڑ پھونک مراد ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عجیب و غریب قسم کے منتر لوگوں کو یاد ہوتے تھے اور یہ مشہور تھا کہ یہ منتر پڑھو تو اس سے فلاں بیماری سے افاقہ ہوجائے گا، فلاں منتر پڑھو تو اس سے فلاں کام ہوجائے گا وغیرہ اور ان منتروں میں اکثرو بیشتر جنات اور شیاطین سے مدد مانگی جاتی تھی،کسی میں بتوں سے مدد مانگی جاتی تھی۔ اس طرح ان منتروں میں ایک خرابی یہ تھی کہ غیر اللہ سے، بتوں سے اور شیاطین سے مددمانگنے کے ساتھ ساتھ ان میں مشرکانہ الفاظ بھی ہوتے تھے۔ دوسری خرابی یہ تھی کہ اہل عرب ان الفاظ کو بذات خو مؤثر مانتے تھے،یعنی ان کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ اگر اللہ تعالی تاثیر دے گا تو ان میں تاثیر ہوگی اور اللہ تعالی کی تاثیر کے بغیر تاثیر نہیں ہوگی، بلکہ ان کا عقیدہ یہ تھاکہ ان الفاظ میں بذات خود تاثیر ہے اور جو شخص یہ الفاظ بولے گا اس کو شفا ہوجائے گی۔ یہ دو خرابیاں تو تھیں ہی اس کے علاوہ بسا اوقات ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے جن کا کوئی معنی نہیں ہوتا تھا، وہ الفاظ بولے اور لکھے جاتے تھے، ان الفاظ میں بھی شیاطین اور جنات سے مدد مانگی جاتی تھی، یہ سب شرک کی باتیں تھیں،اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے جھاڑ پھونک سے منع فرمادیا اور یہ فرمادیا کہ جو لوگ جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں میں مبتلا نہیں ہوتے یہ وہ لوگ ہوں گے جن کو اللہ تعالی بلاحساب و کتاب جنت میں داخل فرمائیں گے۔لہذا حدیث پاک میں جس جھاڑ پھونک کا ذکر ہے اس سے زمانہ جاہلیت کا جھاڑ پھونک مراد ہے۔

(اصلاحی خطبات: ج،15، مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ)

رہی بات کسی سے دعا کروانے کی تو یہ بھی احادیث سے ثابت ہے۔

جنانچہ حدیث میں ہے:

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- قال: اسْتَأْذَنْتُ النبِيَّ -صلى الله عليه وسلَّم- في العُمرة، فَأَذِنَ لِي، وقال: «لاَ تَنْسَنَا يَا أُخَيَّ مِنْ دُعَائِكَ» فَقَالَ كَلِمَةً مَا يَسُرُّنِي أّنَّ لِيَّ بِهَا الدُّنيَا. وفي رواية: وقال: ”أَشْرِكْنَا يَا أُخَيَّ فِي دُعَائِكَ“.

ترجمہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسل سے عمرہ کی اجازت مانگی۔آپ نے اجازت مرحمت فرمادی اور فرمایا:اے میرے چھوٹے سے بھائی! اپنی دعاؤں میں ہمیں نہ بھولنا۔حضرت عمر رضی اللہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو مجھے اپنے بھائی فرمایا یہ ایسا کلمہ ہے کہ اگر اس کے بدلے مجھے ساری دنیا بھی مل جائے تو مجھے ہرگز خوشی نہ ہو۔

{سنن الترمذی: الدعوات،١١٠(٣٥٦٢)}

دوسری روایت میں ہے:

”عن ابي امامة الباهلي، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو متكئ على عصا، فلما رايناه قمنا، فقال:” لا تفعلوا كما يفعل اهل فارس بعظمائها” قلنا يا رسول الله: لو دعوت الله لنا، قال:” اللهم اغفر لنا وارحمنا وارض عنا، وتقبل منا، وادخلنا الجنة، ونجنا من النار، واصلح لنا شاننا كله”، قال فكانما احببنا ان يزيدنا، فقال:” اوليس قد جمعت لكم الامر”.

ترجمہ: ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصا (چھڑی) پر ٹیک لگائے ہمارے پاس باہر تشریف لائے، جب ہم نے آپ کو دیکھا تو ہم کھڑے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایسے کھڑے نہ ہوا کرو جیسے فارس کے لوگ اپنے بڑوں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں“ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: «اللهم اغفر لنا وارحمنا وارض عنا وتقبل منا وأدخلنا الجنة ونجنا من النار وأصلح لنا شأننا كله» ”اے اللہ! ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، اور ہم سے راضی ہو جا، ہماری عبادت قبول فرما، ہمیں جنت میں داخل فرما، اور جہنم سے بچا، اور ہمارے سارے کام درست فرما دے“، ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تو گویا ہماری خواہش ہوئی کہ آپ اور کچھ دعا فرمائیں: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نے تمہارے لیے جامع دعا نہیں کر دی…؟

{سنن ابی داؤد:الادب،١٦٥(٥٢٣٠)}

=================

دلائل:-

١۔”عن عوف بن مالک الاشجعی قال:کنا نرقی فی الجاهلیة، فقلنایارسول اللہ!کیف تری فی ذالک؟ فقال:اعرضوا علی رقاکم،لا باس بالرقی،مالم یکن فیہ شرک“۔

(صحیح مسم:کتاب السلام،باب استحباب الرقیة من العین والنملة،النسخة الہندیة:٢٢٤/٢، بیت الافکار رقم:٢٢٠٠، سنن ابی داؤد: باب ما جاء فی الرقی، النسخة الہندیة:٥٤٢/٢)

ترجمہ: عوف بن اشجعی رضی اللہ سے روایت ہے کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے،ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو فرمایا: اپنے رقیوں(تعویذوں) کو میرے سامنے پیش کرو،رقیہ میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس میں شرکیہ کوئی چیز نہ ہو۔

٢۔”حدثنا عائشۃ عن الرقیۃ من الحمۃ، فقالت رخص الني صلی اللہ علیہ وسلم أرقیۃ من کل ذي حمۃ۔“

(صحیح البخاري، باب رقیۃ الحیۃ والعقرب ۲/۸۵۴، النسخۃ الہندیۃ رقم: ۵۵۱۷، ف:۵۷۴۱، صحیح المسلم، باب استحباب، الرقیۃ من العین والنملہ والحمۃ والنظرۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/۲۲۳، بیت الأفکار رقم:۲۱۹۳)

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر زہریلے ڈنگ کےلیے دم کی رخصت دی“۔

٣۔”عن أنسؓ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رخص في الرقیۃ من الحمۃ والعین النملۃ“۔

(ترمذي شریف، باب ماجاء في الرخصۃ في ذلک، النسخۃ الہندیۃ ۲/۲۶، دار السلام رقم: ۲۰۵۶سنن ابن ماجہ، باب رخص فیہ من الرقي، النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۵۱، دار السلام رقم:۳۵۱۶)

ترجمہ:

رخصت دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کی، نظر بد، ڈنگ(زہر) اور نملہ کےلیے۔“

٤۔”عن عائشة رضی اللہه عنھا ان النبی صلی الله علیه وسلم کان اذا اوی الی فراشه کل لیلة جمع کفیه ثم نفث فیھما فقرا فیھما ”قل ھو الله احد وقل اعوذ برب الفلق وقل اعوذ برب الناس“ ثم یمسح بہما مااستطاع من جسدہ یبدا بھما علی راسہه ووجھه وما اقبل من جسدہ یفعل ذلک ثلث مرات۔“

(صحیح البخاری:کتاب فضائل القرآن، باب فضل المعوذات، ٧٥٠/٢)

ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات جب بستر پر آرام فرماتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر قل ھو اللہ احد ، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر ان پرپھونکتے اور پھر دونوں ہتھیلیوں کو جہا ں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیرتے تھے . پہلے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرتے اور بدن کے سامنے ( یعنی بدن کے آگے حصہ پر) یہ عمل آپ تین دفعہ کرتے تھے۔

٥۔”عن عائشة رضی الله عنھا ان رسول الله صلی الله علیه وسلم کان اذا اشتکی یقرا علی نفسه بالمعوذات وینفث فلما اشتد وجعه کنت اقرا علیه وامسح بیدہ رجاء برکتھا“۔

(صحیح البخاری:٧٥٠/٢)

ترجمہ:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : رسول الله صلى الله عليه وسلم جب بیمار ہوتے تو مُعَوِّذَات ( سورۃ اخلاص ، سورۃ فلق ، سورۃ الناس ) پڑھ کر اپنے اوپر پهونک مارتے ، پھر جب ( مرض الوفات میں ) آپ کی تکلیف زیاده ہوگئی تو میں ان سورتوں کو پڑھ کر رسول الله صلى الله عليه وسلم پرپڑھتی تهی اور اپنے ہاتھوں کو برکت کی امید سے آپ کے جسد مبارک پر پھیرتی تھی

٦۔قال القرطبي رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: ثبت في الصحیحین من حدیث عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم سحرہ یہودي من یہود بني زریق، یقال له: لبید بن الأعصم، حتی یخیل إلیه أنه کان یفعل الشيء ولا یفعله … فأنزل اللّٰہ ہاتین السورتین۔ (تفسیر القرطبي، / سورۃ الفلق ۱۰؍۱۸۱-۱۸۲ دار الکتب العلمیۃ بیروت، ۲۰؍۲۵۳ مکتبۃ دار إحیاء التراث العربي بیروت)

ترجمہ: بنی زریق کے ایک شخص لبید بن اعصم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا تھا اور اس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کے متعلق خیال کرتے کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا۔ اللہ رب العزت نے یہ دونوں سورتیں( معوذتین) نازل فرمائیں۔

٧۔لما فی الھندیۃ:

واما درجۃ المتوسطۃ: وھی المظنونۃ کالمدواۃ باسباب الظاہرۃ عند الاطباء، ففعله لیس منقضا للتوکل بخلاف الموھوم۔

(ج5، ص355، کتاب الکراھیۃ، الباب الثانی عشر فی التداوی، دار الفکر بیروت)

٨”وقد اجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط: ان یکون بکلام اللہ تعالی،او باسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی او بما یعرف معناہ من غیرہ،وان یعتقد ان الرقیة لا توثر بذاتھا بل بذات اللہ تعالی۔۔۔۔“الخ

(فتح الباری شرح صحیح البخاری:کتاب الطب،باب الرقی،١٩٥/١٠،رقم الحدیث:٥٧٣٥،رقم الباب:٣٢۔ط:رئاسة ادارات البحوث العلمیة بالمملکة السعودیة)

فقط واللہ اعلم بالصواب

یکم نومبر 2021ء

26 ربیع الاول 1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں