“خلیفہء بلا فصل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ”

جمادی الاخری کو “جمادی الثانی”بھی کہتے ہیں-اس ماہ میں کوئ خاص عبادت قرآن وسنت سے تو ثابت نہیں ہے لیکن “جمادی الثانی”کی 22 تاریخ کو اسلام کی عظیم شخصیت٫انبیاء کے بعد انسانوں میں “افضل البشر”خلیفہء بلا فصل” خلیفہء اول”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کی وفات کا سانحہ پیش آیا تھا-

” نام و نسب ٫لقب اور کنیت”

“حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ”کا نام “عبداللہ”کنیت ابو بکر” اور لقب صدیق تھا-

والد کا نام ” ابو قحافہ”اور والدہ کا نام”سلمی بنت صخر” تھا-

“آپ رضی اللّٰہ عنہ” کا سلسلہء نسب ساتویں پشت میں” رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے- “آپ رضی اللّٰہ عنہ”بچپن ہی سے بتوں اور شرک سے دور رہتے تھے اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بہترین دوست تھے-“آپ رضی اللّٰہ عنہ”بہترین اخلاق کے مالک تھے اور با اعتماد اور متمول تاجر تھے- اسلام لانے سے قبل بھی غریبوں کے مددگار اور مسکینوں کے غمخوار تھے-

جب” پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو خلعت نبوت سے سرفراز کیا گیا اور “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اسلام کی دعوت دی تو آزاد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے پہلے مرد تھے-

“میرے نبی صل اللہ علیہ وسلم” نے فرمایا” کہ میں نے جس کے سامنے بھی اسلام پیش کیا اس نے کچھ نہ کچھ پس وپیش کیا لیکن ”ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ“ نے فوراً ”دعویٰ  نبوت“ کی تصدیق کی-

اسلام قبول کرتے ہی” آپ رضی اللّٰہ عنہ کا پورا گھرانہ سوائے ” ابو قحافہ“ کے مشرف بہ اسلام ہو گیا-

اسلام قبول کرنے کے بعد ” آپ رضی اللّٰہ عنہ” کی تبلیغ سے بہت سے لوگ اسلام لائے- ان اسلام لانے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بعد میں امت کے لئے مینارہء نور ثابت ہوئے- ان میں “حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ” زبیر ابنِ العوام رضی اللّٰہ عنہ٫ طلحہ بن عبیداللہ٫ عبد الرحمن بن عوف٫سعد بن ابی وقاص٫ حضرت ابو عبیدہ٫خالد بن سعیدرضوان للہ اجمعین” شامل ہیں-

“حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ”اور ان کے اہل خانہ نے اسلام کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کر دیا٫ کفار مکہ کی ایذا رسانی برداشت کی٫اپنی جان خطرے میں ڈال کر “پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم”کی ہر ممکن مدد کی مگر اسلام سے پیچھے نہ ہٹے-

” صدیق کالقںب”

“سنہ11ھ” میں” حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو معراج ہوئ- “امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا”فرماتی ہیں کہ جب” نبیء اکرم صلی اللہ علیہ وسلم”کو اللہ تعالیٰ کے بلاوے پر ” جبرائیل علیہ السلام” معراج کی رات مکہءمکرمہ سے” بیت المقدس” لے گئے پھر وہاں تمام “انبیاء کرام علیہم السلام” کی امامت کروائ پھر “براق”میں سوار کروا کر ساتوں آسمانوں کی سیر کروائی اور وہاں” انبیاء کرام علیہم السلام” سے ملاقات کروائی اور” جنت” دوزخ” کا مشاہدہ کروایا-پھر تنہائی میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور وہاں سے نماز کا تحفہ ملا- ان سب واقعات کے بعد” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے “جبرائیل علیہ السلام” سے کہا تھاکہ میری قوم میری تصدیق نہیں کرےگی٫” حضرت جبرائیل علیہ السلام” نے کہا” ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ””آپ صلی اللہ علیہ وسلم” کی تصدیق کریں گے کیونکہ وہ “صدیق “ہیں-

صبح جب “آپ صلی اللہ علیہ وسلم”نے اس واقعہ کا ذکر کیا تو لوگ اس واقعہ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرنے لگے- چند لوگ دوڑتے ہوئے “حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے٫ آپ کے صاحب کہتے ہیں کہ وہ راتوں رات بیت المقدس جا کر واپس بھی آگئے ہیں- “صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ” نے پوچھا”کیا واقعی ” حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نےایسا فرمایا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں٫ کہا ” اگر حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے”لوگوں نے کہا کیا آپ ان باتوں کی تصدیق کرتے ہیں؟ کہ وہ راتوں رات بیت المقدس گئے اور صبح سے پہلے واپس اگئے-“صدیق اکبر رضی اللہ عنہ”نے فرمایا کہ” ہاں میں تو اس سے بھی بعید از عقل بات کی بھی تصدیق کرتا ہوں کہ آسمان سے صبح و شام ” آسمانی احکامات” آپ صلی اللہ علیہ وسلم” پر اترتے ہیں- اسی بناء پر ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کا لقب صدیق پڑ گیا-(المستدرک)

” تم جیسا آدمی جلا وطن نہیں کیا جا سکتا”
“سنہء5 نبوی میں کفار مکہ کی ایذا رسانی سے مسلمان بہت تکلیف دہ زندگی گزار رہے تھے تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے “آپ صلی اللہ علیہ وسلم” نے مسلمانوں کو ہجرتِ حبشہ کا حکم دیا تو ” “حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے بھی رخت سفر باندھا-مقام برک الغماء میں” ابن الدغنہ” سے ملاقات ہوئ٫ اسنے کہا”تم جیسا آدمی جلا وطن نہیں کیا جاسکتا”تم مفلس و بے نوا کی دستگیری کرتے ہو٫قرابت داروں کا خیال رکھتے ہو٫ مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت کرتے ہو” چنانچہ اس نے “آپ رضی اللّٰہ عنہ”کو واپس مکہ لا کر قریش میں اعلان کر دیا” کہ آج سے “ابوبکر” میری امان میں ہیں-
“آپ رضی اللّٰہ عنہ” نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنائی ہوئی تھی جس میں “آپ رضی اللّٰہ عنہ”خشوع و خضوع سے عبادت کرتےتھے-“آپ رضی اللّٰہ عنہ”جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے اور تلاوت قرآن کریم اتنی دلسوزی سے کرتےکہ کفار کے قریبی گھروں کےبچے اور عورتیں بھی “آپ رضی اللّٰہ عنہ” کے گریہ و بکا کو سن کر”اپ رضی اللّٰہ عنہ” کے اردگرد جمع ہو کر قرآن کریم سنتے-
“سنہء8 نبوی میں شعب ابی طالب میں ” پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم”کے ساتھ محصور ہو کر گزارے-
“تم ساتھ ھی چلوگے”
مکی زندگی میں صبح وشام “حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کے گھر تشریف لے جاتے تھے-ایسے میں مسلمانوں کو ” ہجرتِ مدینہ منورہ” کا حکم ہوا- مسلمانوں نے اپنی برسوں کی زمینیں٫ جائدادیں٫ اور گھر بار سبکی قربانی دے کر “یثرب”جو کہ ” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے قدموں کی برکت سے “مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم” بن گیاہے اسکی طرف ہجرت کرنا شروع کر دیا- غریب اور مسکین مسلمان ڈر ڈر کر اور چھپ چھپ کر ہجرت کرنے لگے- اور جب ” دعائے ” رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” خلیفہء دوم” حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ” نے ہجرتِ”مدینہ منورہ” کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے “حرم کعبہ” پہنچے دو رکعت “نماز حاجت” پڑھی پھر سرداران قریش کے سامنے اعلان کیا کہ میرا کل ہجرت کا ارادہ ہے اگر کسی کو اپنی بیوی کو بیوہ کرانا ہے یا بچوں کو یتیم تو مجھے روک کر دکھا دے-سب خاموش رہے اور “آپ رضی اللّٰہ عنہ”بلا خوف و خطر ” مکہءمکرمہ” سے “مدینہ منورہ”ہجرت کر گئے-
ادھر “حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کی خواہش تھی کہ “ہجرتِ مدینہ” میں “اپنے یار اور ” رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی معیت شامل ہو اس لئے دو اونٹ خصوصی طور پر پہلے سے تیار کر رکھے تھے-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے فرمایا” کہ عجلت نہ کرو٫ امید ہے مجھے ہجرت کا حکم ہوگا٫ “عرض کیا”کیا مجھے بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوگا؟فرمایا ” تم ہی ساتھ چلوگے-
چنانچہ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” 4ماہ تک انتظار کرتے رہے-
“امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہ” فرماتی ہیں
“سنہ13نبوی” میں 27 صفر کو ایک دن (یہ وہ دن تھا جس دن خاکم بدہن” نور نبوت” کو بجھانے کی لئے سرداران قریش شیطان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنی تلواریں ایک ساتھ آزمانے کےلئے” کاشانہء نبوت”صلی اللہ علیہ وسلم” کے گرد کھڑے تھے- اللہ تعالیٰ کے اطلاع دینے سے ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم” اپنے بستر پر” اسداللہ” حیدر کرار”حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ” کو سلا کر “سورہء یاسین کی تلاوت کرتے ہوئے چمکتی تلواروں کے بیچ میں سے نکل آئے اور کفار کی آنکھوں پر پردہ پڑا گیا تھا ( سبحان اللّٰہ) یہ وہ دن تھا)”آپ صلی اللہ علیہ وسلم” منہ چھپائے ہوئے تشریف لائے٫ یہ بات خلاف معمول تھی- “آپ صلی اللہ علیہ وسلم” نے فرمایا کوئ ہو تو ہٹادو میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں-” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے کہا” گھر والوں کے سوا کوئ نہیں ہے-” حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم” گھر کے اندر تشریف لائے اور فرمایا” ہجرت کا حکم ہو گیا ہے٫ ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے معیت کی تمنا ظاہر کی- “آپ صلی اللہ علیہ وسلم” نے فرمایا تیار ہو جاؤ-
“حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے دو اونٹ پہلے ہی تیار کر رکھے تھے-” حضرت اسماء رضی اللّٰہ عنہا” نے کھانا تیار کیا- کھانے کو باندھنے کے لئے جب کچھ میسر نہ ہوا تو انھوں نے اپنی ” نطاق”(جو عرب عورتیں کمر پر باندھتی ہیں)پھاڑ کر اسکے دو ٹکڑے کر کے اس برتن کو باندھا- جسکی وجہ سے ” حضرت اسماء رضی اللہ عنہا”کو “لسان نبوت”صلی اللہ علیہ وسلم” سے “ذات النطاقین” کا لقب ملا-
“قابلِ اعتماد اور رازدار گھرانہ”
اگر ہجرت کے واقعات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم” کو” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” اور انکے گھرانے کی رازداری اور خلوص پر کس قدر اعتماد تھا-
اوریہ کہ رازداری کے تمام کام “حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” اور انکے اہل وعیال ہی سے متعلق تھے-مثلاً”ہجرتِ مدینہ منورہ” کے وقت ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کو ساتھ لے کر “غارثور” میں3دن پوشیدہ رہنا٫ آپ رضی اللّٰہ عنہ” کے صاحبزادے” حضرت عبداللہ” کا رات کو آکر مشرکینِ مکہ کے ارادوں اور حالات سے آگاہ کرنا٫ آپ رضی اللّٰہ عنہ” کے غلام” عامر بن فہیرہ” کا روزانہ ” حضرت عبداللہ بن ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ”کے نقش قدم پر بکریاں چراتے ہوئے لانا(تاکہ ان رضی اللّٰہ عنہ کے قدموں کے نشان مٹ جائیں)اور بکریوں کا دودھ پینے کے لئے پیش کرنا اور “آپ رضی اللّٰہ عنہ” کی صاحبزادی”حضرت اسماء رضی اللّٰہ عنہا”کا کھانا پہنچاناوغیرہ-

رات کے وقت “حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کے ساتھ روانہ ہوئے اور “پہاڑ ثور” تک پہنچے- سفر کے دوران کبھی”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم”کے آگے چلنے لگتے تو کبھی پیچھے- میرے ” نبی صل اللہ علیہ وسلم” نے دریافت فرمایا” ابوبکر ایسا کیوں کر رہے ہو”؟
جواب میں”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نےعرض کیا”اللہ کے “رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم”! میں اس خیال سے پریشان ہوں کہ آگے یا پیچھے سے کوئ “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی گھات میں نہ بیٹھا ہو-(سبحان اللہ)
اس پہاڑ میں ایک غار تھا-جب دونوں غار کے دہانے تک پہنچے تو ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے عرض کیا:”قسم ہے اس ذات کی جس نے ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کوحق دیکر بھیجاہے”ذرا ٹھہریے ! پہلے میں غار میں داخل ہونگا تاکہ اگر غار میں کوئ موذی کیڑا ہو تو کہیں وہ آپ کو کوئ نقصان نہ پہنچا دے- چنانچہ “حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ غار میں داخل ہوئے اور انہوں نے غار کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھا اور جہاں جہاں کوئ سوراخ نظر آیا اسکو اپنی قمیض پھاڑ پھاڑ کر بند کردیا ایک سوراخ رہ گیا تو اپنے پیر کے انگوٹھے سے بند کردیا- پھر” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” غار میں داخل ہوئے اور اور “آپ رضی اللّٰہ عنہ کے زانو پہ سر رکھ کر سو گئے- ادھر سانپ نے جب سوراخ پر ایڑی(انگوٹھا)دیکھی تو اسکو ڈنک مارنا شروع کر دیا-
تکلیف کی شدت سے “حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے لیکن انہوں نے اپنے منہ سے آواز نہ نکلنے دی اور نہ اپنے جسم کو ذرا سی بھی حرکت نہ دی٫ تاکہ “پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی آنکھ نہ کھل جائے-لیکن تکلیف کی شدت سے آنکھ سے آنسو نکل پڑے جو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے چہرے پر گرے٫ جنکی وجہ سے “آپ صلی اللہ علیہ وسلم” کی آنکھ کھل گئی- “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو پوچھا کہ” ابوبکر!کیا ہوا؟
انہوں نے جواب دیا:
“آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا” “مجھے سانپ نے ڈس لیا ہے-“
“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنا لعاب دہن سانپ کے کانٹے پر لگایا٫ فوراً تکلیف دور ہوگئ اور زہر کا اثر ختم ہو گیا ( سبحان اللّٰہ)-
اب دوسری طرف جب ” کاشانہء نبوت صلی اللہ علیہ وسلم” میں صبح ہوئ اور قریشی سرداروں نے جوبستر ” رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ” حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو برآمد ہوتے دیکھا تو انہوں نے “حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ” سے پوچھا “تمہارے صاحب کہاں ہیں”مگر انہوں نے کچھ نہ بتایا تو وہ “حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ” کومارتے ہوئے مسجد حرام تک لائے٫ کچھ دیر انھیں روکے رکھا پھر چھوڑ دیا-
اسکے بعد انھیں یقین ہو گیا کہ ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”ضرور” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کے گھر گئے ہونگے-وہ سب وہاں پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے “دونوں نفوسِ قدسی” رخت سفر باندھ چکے تھے-کفار مکہ نے “حضرت اسماء رضی اللّٰہ عنہا” سے پوچھ گچھ کی سخت سست کہا اور “آپ صلی اللہ علیہ وسلم” کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے-
قریش کے چند سردار جن میں امیہ بن خلف بھی شامل تھا تلاش کرتے کرتے غار کے دہانے تک بھی پہنچ گئے- انکو اتنا قریب دیکھ کر” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” ڈر گئے کہ اگر وہ ذرا بھی جھک کر دیکھیں تو ہم نظر آجائیں گے- “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے تسلی دی اور فرمایا” لا تحزن ان اللّٰہ معنا”(اے ابو بکر! غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے)پھر اللہ کی قدرت سے وہاں مکڑی نے جالا تان دیا اور کبوتروں نے انڈے دے دئے-تب انکو یقین ہو گیا کے غار کے اندر کوئ نہیں گیا- غرض قریش مایوس ہو کر “غارثور” سے ہٹ کر ساحلی علاقوں کی طرف چلے گئے-
“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم “غارِ ثور “میں 3 دن رہے- 3 دن اور 3 راتیں “غار ثور” میں گزارنے کے بعد ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے “حضرت اسماء رضی اللّٰہ عنہا” سے فرمایا”اب تم “علی رضی اللّٰہ عنہ” کے پاس جاؤ اور انہیں غار کے بارےمیں بتادو اور ان سے کہو”وہ کسی رہبر کا انتظام کر دیں٫ آج رات کا کچھ پہرگزرنے کے بعدوہ رہبر یہاں اجائے- اس رہبر کا نام ” عبد اللہ بن اریقط بن عبداللہ لیثی تھا-
غار سے نکل کر”حضور اکرم صلی اللّٰہ” اور “حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ”اونٹوں پر سوار ہوئے اور اپنے رہبر” عبد اللہ بن اریقط”کے ساتھ سفر شروع کیا- “حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کے ساتھ عامر بن فہیرہ بھی سوار تھے- غرض یہ مختصر قافلہ روانہ ہوا- راہبر انہیں ساحل سمندر کے راستے لے کر جا رہا تھا-
ادھر قریش نے “آپ صلی اللہ علیہ وسلم” کی کھوج لگانے والے کے لئے 100 سرخ اونٹنیوں کے انعام کا اعلان کیا تھا- یہ اعلان ” سراقہ بن مالک” نے بھی سنا جو اس وقت تک ایمان نہی لائے تھے-
“سراقہ رضی اللّٰہ عنہ” کہتے ہیں کہ میں نے یہ اعلان سنا ہی تھا کہ میرے پاس ساحلی بستی کا ایک آدمی آیا اور اسنے کہا”کہ اے سراقہ! میں نے کچھ لوگوں کو ساحل کے قریب جاتے دیکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ” وہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور انکے ساتھی ہونگے-
مجھے بھی یقین ہو گیا کہ وہ ” حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم “اور انکے ساتھی ہی ہو سکتے ہیں- میں نے اپنی باندی کے ذریعے اپنا گھوڑا وادی سے باہر پہنچوایا اور کہا کہ وہیں ٹھر کر میرا انتظار کرے- اسکے بعد میں نے اپنا نیزہ نکالا اور اپنے گھر کی پچھلی طرف سے نکل کر وادی میں پہنچا اور اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر ساحل کی طرف روانہ ہوا-اس رازداری کا مقصد یہ تھا کہ میں اکیلا ہی انعام کا حقدار قرار پاوں-
میں نے تعاقب کرنے سے پہلے تیروں سےفال بھی نکالی٫ یہ وہ تیر تھےجن سے عرب لوگ کوئ کام کرنے سے پہلے فال نکالتے تھے-ان میں سے کسی تیر پر لکھا ہوتا تھا” کرو” اور کسی پر لکھا ہوتا تھا ” نہ کرو”-میں نے فال نکالی تو فال میں انکار نکلا” یعنی یہ کام نہ کرو” لیکن “100 اونٹنیوں”کے لالچ میں گھوڑی پر سوار ہو کر آگے بڑھا- یہاں تک کہ “آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے بہت قریب پہنچ گیا٫ “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” اس وقت قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے-
دفعتاً میری گھوڑی کی اگلی دونوں ٹانگیں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئیں- میں نے” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو پکارا ” میں آپ کو کوئ نقصان نہیں پہنچاؤ گا بس آپ دعا کردیں کہ میری گھوڑی کی ٹانگیں زمین سے نکل آئیں٫ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب آپ کا پیچھا نہیں کرونگا-
” نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے دعا فرمائ- “آپ صلی اللہ علیہ وسلم” کے دعا فرماتے ہیں سراقہ کی گھوڑی کے پاؤں زمین سے نکل آئے- پاؤں کے نکلتے ہی سراقہ پھر گھوڑی پر سوار ہو کر” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی طرف بڑھا- “آپ صلی اللہ علیہ وسلم” نے دعا فرمائی”اے اللہ ہمیں اس سے باز رکھ” اس دعا کے ساتھ ہی گھوڑی پیٹ تک زمین میں دھنس گئی- پھر سراقہ نے دعا کی درخواست کی تو گھوڑی زمین سے باہر آگئ لیکن اسنے تیسری مرتبہ بھی آگے بڑھ کے “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو پکڑنے کی کوشش کی اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تب ” سراقہ” سمجھ گیاکہ وہ “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” تک نہیں پہنچ سکتا تب اسنے کہا” میں اب” آپ صلی اللہ علیہ وسلم”کا پیچھا نہیں کرونگا” آپ صلی اللہ علیہ وسلم” میرے سامان میں سے کچھ لینا چاہیں تولے لیں۔۔۔سفر میں کام آئےگا- ” حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم” نے کچھ بھی لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا” تم بس اپنے آپ کو روکے رکھو اور کسی کو ہم تک نہ آنے دو”
” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے یہ بھی فرمایا” اے سراقہ! اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہیں کسری کے کنگن پہنائے جائیں گے” سراقہ یہ سنکر حیران ہوا لیکن ” مخبر صادق صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی یہ پیشنگوئی ” حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ” کے دور میں پوری ہوئ –
سراقہ نے اپنا وعدہ نبھایا اور”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” سے معافی ملنے کے بعد واپس پلٹا اور راستے میں جو کوئ بھی ” حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی تلاش میں آتا ہوا ملتا اسے یہ کہ کر لوٹا دیتا” میں اسی طرف سے ہو کر آ رہا ہوں٫ ادھر مجھے کوئ نہیں ملا٫اور آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ مجھے راستوں کی کتنی پہچان ہے-

” مدینہء منورہ میں آمد”
غرض اس روز یہ قافلہ تمام رات چلتا رہا۔۔۔یہاں تک کہ چلتے چلتے اگلے دن دوپہر کا وقت ہو گیا-دور دور تک کوئ آتا جاتا نظر نہیں آرہا تھا٫ ایسے میں ایک چٹان ابھری ہوئی نظر آئ جس کا سایہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا- “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اس جگہ پڑاؤ ڈالنے کا ارادہ فرمایا-“حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے اس جگہ کو اپنے ہاتھوں سے صاف کر کے” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے سونے کی جگہ بنائی اور اپنی پوستین وہاں بچھادی اور عرض کیا “اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم”!یہاں سو جائیے۔۔میں پہرہ دونگا۔۔” حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سوگئے- ایسے میں “حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے ایک چرواہے کو چٹان کی طرف آتے دیکھا۔۔شاید وہ بھی سائے میں آرام کرنا چاہتا تھا-
” ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے اس سے پوچھا تم کون ہو؟ اسنے بتایا” میں مکہ کا رہنے والا چرواہا ہوں”
“حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے اس سے ایک دودھ والی بکری کا پوچھا- اس نے کہا ” ہاں ہے-” آپ رضی اللّٰہ عنہ” نے اسکی بکری کا دودھ نکلوا کر رکھ لیا-اور ” میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم” کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگے-جب ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم” جاگ گئے تو دودھ میں پانی کی دھار ڈالی تاکہ دودھ ٹھنڈا ہو جائے٫ پھر خدمت اقدس میں پیش کیا-
اب یہ قافلہ پھر روانہ ہوا- ابھی کچھ دور ہی گئے تھے کہ ایک خیمہ نظر آیا- خیمے کے باہر ایک عورت بیٹھی تھیں-یہ “ام معبد رضی اللّٰہ عنہ”تھیں-(ام معبد اور ابو معبد اس واقعے کے بعد ایمان لے آئے تھے)ان کا نام عاتکہ تھا اور وہ ایک بہادر اور شریف خاتون تھیں-انہوں نے بھی آنے والوں کو دیکھ لیا- اس وقت ” ام معبد”کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ چھوٹا سا قافلہ کن عظیم ہستیوں کا ہے-
” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے انکے پاس ایک بکری دیکھی جو بہت دبلی اور لاغر تھی-
“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بہت پیاس محسوس ہوئی اسلئے ” ام معبد” سے ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم ” نے کچھ ہینے کو مانگا تو انہوں نے کہا کہ گھر میں اس لاغر بکری کے سوا کچھ دستیاب نہیں ہے اور اسکی تھنوں میں دودھ کہاں سے آئے گا؟
“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ” نے ارشاد فرمایا” کیا تم مجھے اس کو دوہنے کی اجازت دوگی؟
اس پر ” ام معبد نے کہا ویسے تو یہ دودھ دینے والی نہیں ہے لیکن میری طرف سے اجازت ہے-“حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اسکی کمر اور تھنوں پر ہاتھ پھیرا اور یہ دعا کی:
” اے اللہ! اس بکری میں ہمارے لئے برکت عطاء فرما آمین”
دیکھتے ہی دیکھتے بکری کے تھن دودھ سے بھر گئےاور ان سے دودھ ٹپکنے لگا- یہ نظارہ دیکھ کر” ام معبد” حیران رہ گئیں-
“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا”ایک برتن لاؤ”
“ام معبد” ایک برتن اٹھا لائیں جو اتنا بڑا تھا کہ اس کے اندر اتنا دودھ ا سکتا تھا جس سے 8 سے 10 آدمی سیراب ہو سکتے تھے-” حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اس برتن کو بھرا اور پھر پہلے وہ دودھ سب سے پہلے ” ام معبد رضی اللہ عنہ” کو پلایا- جب وہ خوب سیر ہو چکیں تو اپنے ساتھ آئے ہوئے افراد کو پلایا اور سب سے آخر میں خود دودھ نوش فرمایا اور ارشاد فرمایا” کہ قوم کو پلانے والا خود سب سے بعد میں پیتا ہے”
پھر ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اس برتن کو بھر کر ” ام معبد” کو دیا اور وہاں سے آگے روانہ ہوئے-
شام ڈھلے جب انکے شوہر ” ابو معبد” گھر لوٹے جو اپنی بکریوں کو چرانے گئے ہوئے تھے٫تو اتنے بڑے برتن میں اتنا سارا دودھ دیکھ کر حیران ہو گئے٫ اور بیوی سے بولے” اے ام معبد! یہ اتنا سارا دودھ یہاں کیسا رکھا ہے٫ گھر میں تو کوئ دودھ دینے والی بکری بھی نہیں ہے-
“ام معبد” بولیں” آج یہاں سے ایک بہت مبارک شخص کا گزر ہوا تھا”
یہ سنکر ” ابو معبد”مزید حیران ہوئےاور بولے” ذرا ان کا حلیہ تو بتاؤ”
جواب میں “ام معبد” نے جو” شمائل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم” بیان کیا ہے وہ خود اپنی جگہ ایک شاہکار ہے-

“حلیہء مبارک صلی اللّٰہ علیہ وسلم” جو “ام معبد رضی اللّٰہ عنہا”نے اپنے شوہر “ابو معبد” رضی اللّٰہ عنہ” سے بیان کیا”
پاکیزہ رو٫کشادہ چہرہ٫ پسندیدہ خو٫نہ توند نکلی ہوئ٫نہ چندیا کے بال گرے ہوئے٫زیبا٫صاحب جمال٫ آنکھیں سیاہ وفراخ و سرمگیں٫ بال لمبے(کان کی لو تک) اور گھنے٫سیاہ گھنگھریالے بال٫بلند گردن٫ باریک و پیوستہ ابرو ٫دندان مبارک خوبصورت اور چمکدار٫ ناک کھڑی ہوئ خوبصورت٫ خاموشی وقار کے ساتھ٫ دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب٫ قریب سے دیکھنے میں نہایت شیریں و کمال حسین٫ انکی طرف نظر پڑتی تو دوسری طرف ہٹ نہیں سکتی تھی- شیریں کلام٫واضح الفاظ٫ کلام کمی بیشیء الفاظ سے معرا٫ تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئ ہوئ٫ میانہ قد-کہ نہ کوتاہی سے حقیر نظر آتے٫ نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی٫ زیبندہ منظر والا قد٫
رفیق ایسے کہ ہر وقت انکے گردو پیش رہتے٫ جب وہ(صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کچھ کہتے تو چپ چاپ سنتے ہیں-حکم دیتے ہیں تو تعمیل کے لئے جھپٹتے ہیں٫ مخدوم٫ مطاع٫ نہ کوتاہ سخن٫ نہ ترش رو٫ نہ فضول گو-
(از زادالمعاد الابن قیم الجوزی)٫56/3 ماخوذ از رحمتہ اللعالمین٫)
“حضرت ام معبد رضی اللّٰہ عنہا” سے”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا حلیہء مبارک سن کر “حضرت ابو معبد رضی اللّٰہ عنہ” بولے
” اللّٰہ کی قسم یہ حلیہ اور صفات تو انہی قریشی بزرگ کی ہیں٫ اگر میں اس وقت یہاں ہوتا تو ضرور انکی پیروی اختیار کر لیتا اور اب میں اس کی کوشش کرونگا”-
چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ” حضرت ابو معبد اور ام معبد رضی اللّٰہ عنھم” ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تھے اور انہوں نے اسلام قبول کیا تھا-اور ” انکی جس لاغر بکری کا دودھ ” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اپنے دست مبارک سے دوہا تھا وہ 🐐 حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ “کے زمانے تک زندہ رہی- (سبحان اللّٰہ)

“پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ آمد”
ادھر مدینہ منورہ میں مسلمانوں کو یہ خبر مل چکی تھی کہ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے “مدینہ منورہ” کی طرف روانہ ہو چکے ہیں اس لئے بےچینی سے ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آمد کا انتظار تھا- وہ لوگ روزانہ صبح سویرے اپنے گھروں سے نکل کر “حرہ” کے مقام تک آجاتے اور جب دوپہر میں دھوپ میں تیزی آجاتی تو مایوس ہو کر لوٹ جاتے- ایک دن اسی طرح مایوس ہو کر لوٹنے لگے تو ایک یہودی نے جو ایک اونچے ٹیلے پر کھڑا تھا اسے دور سے کچھ سفید لباس والے آتے دکھائی دئے- اس قافلے سے اٹھنے والی گرد ہٹی تو اسکو ” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” واضح طور پر نظر آئے تو وہ یہودی پکار اٹھا “اے گروہ عرب! جن کا تمہیں انتظار تھا٫وہ لوگ آگئے”
یہ الفاظ سنتے ہی مسلمان واپس دوڑ پڑے اور “حرہ” کے مقام پر پہنچ گئے- ایک روایت میں ہے کہ 500 سے زائد کچھ انصاریوں نے” اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا استقبال کیا-
“حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم” اس کے بعد پیر کے دن قبا تشریف لائے اور قبیلہء بنی عمرو بن عوف کے ایک شخص” کلثوم بن معدم رضی اللّٰہ عنہ” کے گھر قیام فرمایا- یہاں “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اسلام کی سب سے پہلی مسجد “مسجد قباء” کی بنیاد رکھی- اس مسجد کی اہمیت اور فضیلت اس حدیث سے ثابت ہے” ارشاد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ہے کہ ” جس شخص نے مکمل طور پر وضو کیا٫ پھر” مسجد قباء”میں نماز پڑھی تو اسے ایک حج وعمرہ کا ثواب ملےگا-اور یہ ” حدیث پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم” مسجد کی محراب کے اوپر عربی میں لکھی ہوئ کے-
“سورہ التوبہ” میں اس مسجد کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے”مفہوم:”جو مسجد اول روز سے تقوی پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لئے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں عبادت کے لئے کھڑے ہو٫اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں٫اور اللہ تعالیٰ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں”(سورہ التوبہ:108)
قبا سے “سرکار دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”اپنے جانثار “اور” رفیق خاص” “حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کی معیت میں “مدینہء منورہ” کے افق پر” بدر منیر” بن کر طلوع ہوئے- تمام شہر تکبیر کی روح پرور صداؤں سے گونج اٹھا- انصار کی معصوم بچیاں خوشی میں یہ طربیہ اشعار پڑھ رہی تھیں-
“طلع البدر علینا
من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا
ما داع للہ داع”
راستے میں” حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” ایک جگہ بیٹھ گئے اور “یار غارِ ثور”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے-جن لوگوں نے “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا وہ ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کو ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” سمجھ کر ان سے گرمجوشی سے ملنے لگے- یہ بات مزاج دار ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” نے فوراً محسوس کر لی چنانچہ ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے دھوپ سے بچنے کےلئے ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم” پر اپنی چادر سے سایہ کردیا- تب لوگوں کو پتہ چل گیا کہ ” اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم” یہ ہیں-
مدینہ منورہ کا پہلا نام یثرب تھا- یثرب ایک شخص کا نام تھا جو ” “حضرت نوح علیہ السلام” کی اولاد میں سے تھا- “آپ صلی اللہ علیہ وسلم” کی آمد سے “یثرب” مدینہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” بن گیا – مدینہء منورہ میں ” حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی آمد جمعہ کے روز ہوئ اور” پہلا جمعہ” اسی روز پڑھایا گیا-
مہاجرین کی آمد کے بعد جب ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” بھی مدینہ منورہ”تشریف لے آئے تو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اسی جگہ مسجد بنانے کا فیصلہ کیا جس جگہ” اونٹنی قصواء” بیٹھی تھی- یہ جگہ دو یتیم بچوں ” سہل اور سہیل” کی تھی-وہ بچے زمین بلا قیمت دینے کو تیار تھے لیکن ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” سے اسکی قیمت جو دس دینار تھی ادا کروائ- سبحان اللّٰہ کیا قسمت پائ ہے ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے کہ قیامت تک” مسجد نبوی” صلی اللّٰہ علیہ وسلم” میں ادا کی جانے والی نمازوں کا ثواب٫یارغار رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو ملتا رہے گااور ” حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا ارشاد ہے” میری مسجد میں ایک نماز پڑھنا دوسری مسجدوں میں 1000 نماز پڑھنے سے افضل ہے”

“اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” کی مدینہ منورہ میں آمد”
مسجد نبوی کی تعمیر اور حجروں کی تعمیر کے بعد ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم”نے “حضرت زید بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ اور” حضرت زید بن رافع رضی اللّٰہ عنہ کو مکہ بھیجا تاکہ وہ ” حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے گھر والوں کو ساتھ لے آئیں- اس سفر کے خرچ کے لئے 500درہم اور دو اونٹ “حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے دیئے اور رہبر کے طور پر” عبداللہ بن اریقط” کو بھیجا-
اپنے گھر والوں کو لانے کی زمہ داری بھی ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے انہیں سونپی-
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم”کی صاحبزادیاں “حضرت فاطمہ اور ” حضرت ام کلثوم رضی اللّٰہ عنھن٫ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ” کی اہلیہ ” حضرت سودہ بنت زمعہ” دایہ “ام ایمن رضی اللّٰہ عنہا اور انکے بیٹے “اسامہ بن زید”رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ ساتھ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کے گھر والے بھی مدینہ منورہ اگئے- جن میں “آپ رضی اللّٰہ عنہ” کی صاحبزادیاں “امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہ اور “حضرت اسماء رضی اللّٰہ عنہا اور صاحبزادے”حضرت عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ بھی ساتھ آئے تھے جبکہ ” “آپ رضی اللّٰہ عنہ” کی زوجہ محترمہ”حضرت ام رومان رضی اللّٰہ عنہا” بھی اس محترم قافلے میں شامل تھیں-” حضرت ام رومان رضی اللّٰہ عنہا” کے بارے میں ” نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم” نے فرمایا تھا:
“جس شخص کو جنت کی حور دیکھنے کی خواہش ہو٫وہ “ام رومان”رضی اللّٰہ عنہا” کو دیکھ لے'”
ہجرت کے اس سفر میں ” حضرت اسماء رضی اللّٰہ عنہا کو مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے قبا میں ٹھرنا پڑا-یہاں انکے ہاں “حضرت عبداللہ بن زبیر” رضی اللّٰہ عنہ” پیدا ہوئے- یہ ہجرت کے بعد مہاجرین کے ہاں پہلا بچہ تھا- حضرت عبداللہ بن زبیر” رضی اللّٰہ عنہ” کی پیدائش پر مہاجرین کو بہت خوشی ہوئی کیونکہ کفار نے مشہور کر دیا تھا کہ جب سے”رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” اور مسلمان مہاجرین”مدینہ آئے ہیں انکے ہاں کوئ “نرینہ اولاد” نہیں ہوئ- کیونکہ ہم نے ان پر جادو کر دیا ہے-” حضرت عبداللہ” کی پیدائش پر انکی یہ بات غلط ثابت ہوئ اسلئے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی- “حضرت عبداللہ” کی پیدائش کے بعد ” حضرت اسماء رضی اللّٰہ عنہا مدینہ پہنچیں اور اپنا بچہ برکت کے لئے ” حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی گود میں دیا- ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تحنیک فرما کر دعائیں دیں-
” غزوہء بدر” جو کفر و اسلام کی پہلی جنگ ہے جس دن کو “یوم الفرقان” بھی کہتے ہیں یہ بھی بہت عظیم الشان اور عجیب و غریب جنگ تھی-1000 کےکفار کے لشکر کے ساتھ اسلحہ اور طاقت اور قوت سے لیس دشمن کا “313”مسلمانوں سے مقابلہ تھا- جن کے پاس صرف چند تلواریں اور 5گھوڑے تھے-20 کے قریب اونٹ تھے- لیکن وہ سب اسلام کی دولت سے مالامال تھے- انکو یقین تھا کہ موت اپنے وقت پر ہی آئےگی” پھر” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” درد بھری دعا”اے اللہ! اگر آج مومنوں کی یہ جماعت ہلاک ہو گئ تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئ نہیں رہیگا” کے طفیل “اور اللہ تعالیٰ” کی فرشتوں کے ذریعے مددبھی شامل تھی-
جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ
چشم زدن میں کفار کے 70 بہترین سردار بری طرح مارے گئےاور 70 ہی قیدی بن کر آئے-جنگ کے بعد” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے قیدیوں کے بارےمیں مشورہ فرمایا- ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کا مشورہ یہ تھا کہ انکو فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے جبکہ حضرت” عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ” کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے- ہر مسلمان اپنے کافر رشتہ دار کو اپنے ہاتھ سے قتل کرے-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے بعض مصلحتوں کی بناء پر” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کا مشورہ پسند کیا اور ان لوگوں کی جان بخشی کردی٫ ان سے فدیہ لے کر انہیں رہا کردیا-تاہم اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے” حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ” کی رائے کو پسند کیا (سورہ الانفال٫67تا70 )ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح کیا کہ ان قیدیوں کو قتل کیا جانا چاہئے تھا- غرضیکہ “حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے ساتھ ہر ہر لمحہ رہے ہر غزوہ میں شامل ہوئے اور شجاعت کے جوہر دکھائے
“غزوہء بدر میں” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کے بیٹے عبدالرحمن جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے کفار کے ساتھ شامل تھے-جب عین جنگ میں ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” اپنے بیٹے کی زد میں آگئے تو محبت پدری نے جوش مارا اور وہاں سے ہٹ گئے- اسلام لانے کے بعد اپنے والد سے اسکا تذکرہ کیا تو” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے فرمایا” بیٹا اگر تم میری زد میں آجاتے تو میں اللہ کے مقابلے میں تمہاری کوئ پروا نہ کرتا اور تمہاری گردن اڑانے میں کوئ دریغ نہ کرتا-بقول شاعر”
” سن کے یہ حضرت صدیق نے ارشاد کیا”
“راہ حق نہیں رشتہ کی رعایت کا محل”
“تو میری زد پہ جو آتا تو نہ بچ کر جاتا”
“یہ میری تیغ تھی تیرے لئے پیغامِ اجل” سبحان اللہ 

اپنا تبصرہ بھیجیں