مالی جرمانے کا حکم

سوال:گاوں میں ہمارا ایک اسکول ہے اس میں ڈیڑھ سو بچے پڑھتے ہیں ۔گاوں میں پڑھائی کا رجحان کم ہی ہوتا ہے ۔بچے ہوم ورک کرنے کی بجاۓ جسمانی سزا برداشت کر لینا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔اس مرتبہ گرمیوں کا کام دینے کے ساتھ ہم نےایک نوٹ بھی لکھ کر والدین کو بھیجا کہ اگربچےچھٹیوں کا کام نہیں کر کے لاۓ تو دو سو روپے جرمانہ ہو گا ۔مقصد یہ تھا کہ والدین ذمہ داری سے کام کروائیں ۔پوچھنا یہ کہ کیا یہ جرمانہ لینا جائز ہے ؟

الجواب باسم ملہم الصواب

مالی جرمانہ اس معنی میں لینا کہ طالبعلم سے مال لے کر اسکول کی آمدنی کا حصہ بنالیا جاۓ یہ جائز نہیں ہے ۔اس لئے مذکورہ صورت سے اجتناب لازم ہے البتہ طلبہ کو تنبیہہ کرنے کا کوئی اور طریقہ نہ ہو تو اس صورت میں مالی جرمانے کی اس حد تک اجازت ہے کہ ان سے مال لے کر کچھ دنوں کے لئے روک یا جاۓ جب وہ ٹھیک ہو جائیں تو انہیں واپس کر دیا جاۓ لیکن جرمانے کو اسکول کے اخراجات میں یا ذاتی استعمال میں لانا ناجائز ہے ۔اس سے اجتناب لازم ہے ۔

حوالہ جات : –

1…عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ ،عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ،عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ؟ فَقَالَ :مَنْ أَصَابَ بِفِيهِ مِنْ ذِى حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلاَ شَىْءَ عَلَيْهِ ،وَمَنْ خَرَجَ بِشَىْءٍ مِنْهُ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ۔
(سنن ابی داود،باب التعریف باللقطۃ،247/1)
ترجمہ۔۔۔عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت پر لٹکتے ہوئے پھل کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو حاجت مند اسے کھائے اور چھپا کر نہ لے جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں،اور جو اس میں سے کچھ چھپا کر لے جائے تو اس کا دو گنا جرمانہ دے اور سزا الگ ہو گی ۔
کتب فقہ :-
1…وأفاد فى البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عند مدة ليزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي .وفى المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ ورأى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى۔

(ردالمحتارعلى الدرالمختار،كتاب ؛الحدود،باب التعزير،مطلب فی التعزيربأخذالمال،61/4)
2…يَجُوزُ التَّعْزِيرُ بِأَخْذِ الْمَالِ وَهُوَ مَذْهَبُ أَبِي يُوسُفَ وَبِهِ قَالَ مَالِكٌ ، وَمَنْ قَالَ : إنَّ الْعُقُوبَةَ الْمَالِيَّةَ مَنْسُوخَةٌ فَقَدْ غَلِطَ عَلَى مَذَاهِبِ الْأَئِمَّةِ نَقْلًا وَاسْتِدْلَالًا وَلَيْسَ بِسَهْلٍ دَعْوَى نَسْخِهَا .وَفِعْلُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَأَكَابِرِ الصَّحَابَةِ لَهَا بَعْدَ مَوْتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبْطِلٌ لِدَعْوَى نَسْخِهَا ، وَالْمُدَّعُونَ لِلنَّسْخِ لَيْسَ مَعَهُمْ سُنَّةٌ وَلَا إجْمَاعٌ يُصَحِّحُ دَعْوَاهُمْ۔
(معین الحکام،فصل التعزیرلا یختص بفعل معین: 231)
3…وفي الْمُجْتَبَى لم يذكر كَيْفِيَّةَ الْأَخْذِ وَأَرَى أَنْ يَأْخُذَهَا فَيُمْسِكَهَا فَإِنْ أَيِسَ من تَوْبَتِهِ يَصْرِفُهَا إلَى ما يَرَى۔
(البحر الرائق،کتاب الحدود 44/5)
واللہ اعلم بالصواب
12 اگست 2022
13محرم 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں