مرحا، ماہم ، ماہین نام رکھنا

سوال: مرحا ،ماہم ،ماہین نام رکھ سکتے ہیں؟ ان کے معنیٰ بھی بتادیں۔

الجواب باسم ملهم الصواب!
“مرحا”کے مختلف تلفظ ہیں،ہر ایک کا الگ مطلب ہے،چنانچہ ملاحظہ ہو:
’’مِرحا‘‘ (میم کے زیر اور ح کے بعد الف کے ساتھ) عربی قواعد کے اعتبار سے درست نہیں ہے، ’’مرحه‘‘ (میم کے کسرہ اور آخر میں گول تاء کے ساتھ) تکبر کے معنیٰ میں بھی آتا ہے اور اناج کے معنیٰ میں بھی آتا ہے؛ پہلے معنی کا اعتبار کرتے ہوئے یہ نام رکھنا درست نہیں ۔

“مَرَ حا” (میم اور را پر زبر اور آخر میں الف کے ساتھ ) کا مطلب ہے” تکبر کرنا”۔ اس معنی کے اعتبار سے بھی یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔

“مَرْحیٰ” (میم پر زبر اور را ساکن) عربی میں یہ لفظ دو صیغے بن سکتاہے:

1- ’’مَرحٰی‘‘ (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبر کے ساتھ ) ’’مَرِح‘‘ کی جمع بھی ہے، مرح کا معنی (اترانے والا) یا (ہلکا) آتا ہے، یہ نام رکھنا بھی درست نہیں ہے۔

2- ’’مَرحیٰ‘‘ (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبر (الف مقصورہ کے ساتھ) تیر کے نشانے پر لگنے کی صورت میں شاباشی دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی طرح خوشی سے جھومنا، اور چکی کا پاٹ بھی اس کے معنی ہیں، اس معنیٰ کے اعتبار سے یہ نام رکھنا جائز تو ہوگا، لیکن چوں کہ غلط معنیٰ کا وہم برقرار رہے گا اس لیے نہ رکھنا بہتر ہے۔

“ماہم” تلاش کے باوجود کسی مستند عربی، اردو یا فارسی لغت میں ’’ماہم‘‘ کا معنی نہیں ملا، بظاہر یہ ایک لفظ نہیں، بلکہ ’’ماہم‘‘ فارسی زبان کے دو لفظوں کا مجموعہ ہے، ’’ماہ‘‘ بمعنی چاند اور ’’ہم‘‘ جمع متکلم کا صیغہ ہے ، دونوں کو ملا کرتخفیفاً ایک ’’ہ‘‘ کو حذف کرلیا گیا ہے، لہٰذا ’’ماہم‘‘ کے معنی ہیں ’’ہمارا چاند۔

ماہین فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی چاند کی مانند، حسین و جمیل خاتون کے آتے ہیں، یہ نام رکھ سکتے ہیں، تاہم ناموں کے سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ بچوں کے نام انبیاء کرام علیہم السلام یا صحابہ رضی اللہ عنہم یا صحابیات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کسی نام پر رکھے جائیں، یاکوئی اچھا بامعنی عربی نام رکھا جائے۔

=====================================

1)”مِرحة : (معجم الرائد) (اسم) 1- مرحة : النوع من مرح 2- مرحة : أكداس من الزبيب وغيره. المِرْحَةُ : (معجم الوسيط) المِرْحَةُ : الأنبارُ من الزَّبيب ونحوه”.

2)”مرح : (مَرِحَ، كفَرِحَ: أَشِرَ وبَطِرَ) ، والثلاثةُ أَلفاظٌ مترادفةٌ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {بِمَا كُنتُمْ تَفْرَحُونَ فِى الاْرْضِ بِغَيْرِ الْحَقّ وَبِمَا كُنتُمْ تَمْرَحُونَ} (غَافِر: 75) وَفِي المفردَاتِ: المَرَحَ: شِدَّةُ الفَرَحِ والتَّوسُّع فِيهِ. (و) مَرِحَ (: اخْتَالَ) ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {وَلاَ تَمْشِ فِى الاْرْضِ مَرَحًا} (الإِسراء: 37) أَي متبختِراً مُخْتَالاً.(و) مَرِحَ مَرَحاً: (نَشِطَ) . فِي (الصِّحَاح) و (الْمِصْبَاح) : المَرَحُ: شِدَّة الفَرَحِ، والنَّشاط حتّى يُجاوِزَ قَدْرَه، (و) مَرِحَ مَرَحاً، إِذَا خَفَّ، قَالَه ابْن الأَثير. وأَمْرَحَه غيرُه. (وَالِاسْم) مرَاحٌ، (ككِتَاب، وَهُوَ مَرِحٌ) ، ككَتِف (ومِرِّيحٌ، كسكِّين، مِنْ) قَوْم (مَرْحَى ومَرَاحَى) ، كِلَاهُمَا جمْع مَرِحٍ،۔۔۔۔۔۔۔ (ومَرْحَى) مَرّ ذِكرُه (فِي برح) قَالَ أَبو عمرِو بنُ العلاءِ: إِذا رَمَى الرّجلُ فأَصابَ قيل: مَرْحَى لَه، وَهُوَ تَعجبٌ من جَودةِ رَمْيِه. وَقَالَ أُميّة بن أَبي عَائِذ: يُصِيب القَنيصَ وصِدْقاً يَقُول مَرْحَى وأَيْحَى إِذا مَا يُوالِي وإِذا أَخطأَ قيل لَهُ: بَرْحَى. (و) مَرْحَى: (اسمُ ناقةِ عَبْدِ الله بن الزَّبِيرِ)

تاج العروس (7/ 113)

3)ماہین: منسوب به ماه

ماه: (به مجاز) زیبا و قشنگ، دوست داشتنی، دختر زیباروی

(به مجاز) زیبا رو، درخشان و نورانی۔

والله سبحانه وتعالى اعلم!
6/12/1444

اپنا تبصرہ بھیجیں