مسجد میں عصری تعلیم دینا

سوال: السلام علیکم ورحمت الله وبرکاتہ۔
مسئلہ میں شرعی حکم بتاکر عنداللہ مأجور ہوں۔
مسئلہ: مسجد میں کمپیوٹرز پر بزنس سکھانے کیلئے کمپیوٹر کلاس کا انتظام کرنا جائز ہے؟ جبکہ اس نیت سے سکھایا جائے کہ وہ سیکھنے کے بعد اس سے کمانے والی کمائی سے مسجد میں بھی فنڈ دیا کرینگے ۔ یہ نہیں پتہ کہ دینگے یا نہیں ۔ لیکن اسی خیال سے کمپیوٹر کلاس ہو رہی ہو۔

الجواب باسم ملہم الصواب

واضح رہے کہ جس زمین پر ایک مرتبہ شرعی مسجد بن جائے تو وہ قیامت تک کے لیے مسجد رہتی ہے،اسے نماز ،ذکر اور دینی تعلیم سیکھنے اور سکھانے کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں، لہذا صورتِ  مسئولہ میں  مسجد کے اندر کمپیوٹر کلاس کا انعقاد کرنا درست نہیں۔ تاہم مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ ان کلاسس کاانعقاد کیا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات :

وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّهِ اَحَدًافراط۔
(سورۃ جن: 18)
ترجمہ: اور بے شک مسجدیں اللہ کے لیے ہیں پس تم اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو.
———————————————
1۔”البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية۔“
 (فتاوی ھندیہ: جلد 2،صفحہ 362)

2۔اذا اراد انسان ان یتخذ تحت المسجد
حوانیت غلۃ لمرمۃ المسجد او فوقہ لیس لہ ذلک کذافی الذخیرۃ۔
(فتاوی ھندیہ: جلد 2، صفحہ 495)

3۔قال في الہندیة لو جلس المعلم في المسجد والوراق یکتب فإن کان المعلم یعلم للحسبة والوراق یکتب لنفسہ فلا بأس بہ لأنہ قربة، وإن کان بالأجرة یکرہ
(فتاوی ھندیہ : جلد 5،صفحہ 371)

4۔”فقد قال الله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] وما تلوناه من الآية السابقة فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأنّ المسجد ما بني إلا لها من صلاة واعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن، ولايتعين مكان مخصوص لأحد“۔
(البحر الرائق: جلد2،صفحہ 36)
 
5۔”(قوله: ومن علم الأطفال إلخ ) الذي في القنية أنه يأثم ولا يلزم منه الفسق ولم ينقل عن أحد القول به ويمكن أنه بناء على بالإصرار عليه يفسق  أفاده الشارح قلت بل في التاترخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة  وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به اه  لكن استدل في القنية بقوله عليه الصلاة والسلام جنبوا مسجدكم صبيانكم ومجانينكم“۔
(فتاوی شامیہ: جلد 6،صفحہ 428)

6۔”لأن المسجد ما بني إلا لصلاۃ أو اعتکاف وذکر شرعي وتعلیم علم وتعلمہ، وقراءۃ قرآنٍ“
(غمز عیون البصائر: جلد 4 ، صفحہ 63)
——————

1۔مسجد کے تہ خانے میں مدرسہ قائم کرنا:
اگر مسجدیت کے مکمل ہونےسے قبل ایسا کیا جائے تو جائز ہے ورنہ ناجائز۔
(امدادالفتاوی: جلد 2، صفحہ 683)
——————————-
واللہ اعلم بالصواب
26دسمبر2022
2جمادی الثانی 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں