مسجد میں صدقہ دینا

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!

دعوت اسلامی والے جو ہری پگڑی والے بھی کہلاتے ہیں، کیا ان کی مسجد میں اگر کوئی کام ہو رہا ہو، جیسے: بورنگ کا کام یا کوئی تعمیری کام تو کیا صدقہ کی نیت سے پیسے دے سکتے ہیں؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

بلاشبہ مسجد کی تعمیر میں نفلی صدقات دینا جائز اور باعثِ ثواب ہے  البتہ جس طبقے کا سوال میں ذکر ہے وہ چونکہ بدعت کا مرتکب ہے، ان کی مسجد میں چندہ دینے سے بدعت کی ترویج ہوگی،اس لیے احتیاط کی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

1. قال الله تعالى:

“تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ”.

(سورة المائدة: 2)

ترجمہ:

“نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو”۔

2. لما في سنن إبن ماجة:

“عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” إن مما يلحق المؤمن من عمله، وحسناته بعد موته، علما علمه ونشره، وولدا صالحا تركه، ومصحفا ورثه، أو مسجدا بناه، أو بيتا لابن السبيل بناه، أو نهرا أجراه، أو صدقة أخرجها من ماله في صحته وحياته يلحقه من بعد موته”.

(أبواب كتاب السنة، بَابُ ثَوابِ مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ: 242)

ترجمہ:

” حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کو وفات کے بعد جو نیک عمل پہنچتے ہیں، وہ یہ اعمال ہیں: ایسا علم جو سیکھایا اور اسے پھیلایا، نیک اولاد جو پیچھے چھوڑی، قرآن پاک کا نسخہ جو کسی کو وراثت میں ملا ہو، مسجد جو اس نے تعمیر کی، مسافر خانہ جو اس نے قائم کیا، نہر جو اس نے جاری کی یا صدقہ جو اس نے اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں نکالا، ان سب کا ثواب اس کی موت کے بعد اسے ملتا رہتا ہے”۔

3. وفي الھندیة:

“لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار، والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين”.

(کتاب الزکاة، الباب السابع فی المصارف: 1/ 188)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں