نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ادیان اور مذاہب میں

“پانچواں سبق”

“نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”ادیان اور مذاہب میں”

“دنیا کی پہلی نبوت”

عالم دنیا میں سب سے پہلے”سیدنا آدم علیہ السلام” پیدا ہوئے٫لیکن “نبوت” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو سب سے پہلے ملی٫وہ بھی”ختم نبوت”-

“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فرمایا”ترجمہ٫ مفہوم”میں اس وقت بھی ( لوح محفوظ میں) “آخری نبی” لکھا ہوا تھا جب”باوا آدم علیہ السلام” ابھی گارے میں تھے-میں تمہیں اپنی تاریخ بتاتا ہوں”میں” حضرت ابراہیم خلیل اللّٰہ” کی دعا کا ثمر٫ “حضرت عیسیٰ مسیح اللّٰہ”کی بشارتوں کا مصداق٫اور اپنی”والدہ٫ بی بی آمنہ” کے خواب کی تعبیر ہوں-میری ولادت کے وقت”میری والدہ” نے دیکھا کہ” ایک نور” انکے آنگن سے نکلا جس نے “شام کے محلات” کو روشن کر دیا-

“خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی نبوت کی تصدیق”انبیاء کرام علیہم السلام” کی” نبوت” کی شرط ہے-

ترجمہ:اور ان کو وہ وقت یاد دلاؤ جب”اللّٰہ تعالٰی” نے” پیغمبروں سے”عہد” لیا تھا کہ”اگر میں تم کو “کتاب اور حکمت” عطاء کروں٫ پھر تمہارے پاس “کوئ رسول”آئے جو اس “کتاب” کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے تو “تم” اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور ضرور”اسکی مدد کروگے”-“اللّٰہ تعالٰی” نے ان” پیغمبروں” سے یہ بھی کہا تھا کہ” کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو؟ اور میری طرف سے دی ہوئ یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو ؟ سب نے کہا”ہم اقرار کرتے ہیں-“اللّٰہ تعالٰی” نے کہا”تو پھر ایک دوسرے کے اقرار کے گواہ بن جاؤ٫ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں-(آل عمران-81)

“ایک حدیثِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے”ترجمہ: مفہوم٫” حق تعالیٰ شانہ”نے انبیاء کرام علیہم السلام” میں سے جس کو بھی مبعوث فرمایا تو ان سے یہ عہد ضرور لیا کہ”اگر ان کی زندگی میں”حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” تشریف لے آئے تو وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں”- (الدر المنشور)

اس “آیت” اور”حدیثِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”سے جو نتیجہ برآمد ہوا ہے وہ نہایت حیرتناک ہے اور وہ یہ کہ “تمام نبیوں اور رسولوں کی نبوت و رسالت کی شرط ہی” حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم” کی تصدیق و حمایت تھی-

“یعنی عالم ارواح”میں رسولوں نے اس شرط کو مانا تبھی انہیں نبوت عطاء کی گئ-

“حضرت ابراہیم علیہ السلام”کا(vision) مقصد

“حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام”نے اللّٰہ تعالٰی” کے حکم سے”حضرت بی بی ہاجرہ علیہ السلام” اور ننھے اسماعیل علیہ سلام” کو “مکہ مکرمہ”میں آباد کیوں کیا؟ان کا مقصد کیا تھا؟اس کا اندازہ” بخاری شریف”کی اس روایت سے ہوتا ہے٫جس میں ان کی “فلسطین سے مکہ”4” بار آمد کا تذکرہ ہے-

1- پہلی مرتبہ بیوی بچہ کو”اللّٰہ تعالٰی” کے حکم سے چھوڑنے کے لئے-2- دوسری مرتبہ” ننھے اسماعیل” کو”اللّٰہ” کے حکم سے ذبح کرنے کے لئے٫3- تیسری مرتبہ “حضرت اسماعیل علیہ السلام”کی پہلی شادی کے بعد جب بیٹے سے ملنے آئے تو وہ گھر پر نہیں ملے٫ان کی بیوی نے تنگدستی کی شکایت کی٫تو ابراہیم علیہ السلام” نے کہا جب “اسماعیل علیہ السلام” آئیں تو کہنا کہ گھر کی چوکھٹ بدل لیں- “اسماعیل علیہ السلام” اشارہ سمجھ گئےاور اس خاتون کو”طلاق دے کر”مضاض” کی بیٹی سے شادی کرلی-

4-چوتھی مرتبہ” حضرت اسماعیل علیہ السلام” کی دوسری شادی کے بعد آئے٫ اتفاق سے اس دن بھی بیٹے سے ملاقات نہیں ہوئ”لیکن اپنی اس بہو کو ہر حال میں شکر گزار پایا تو کہا” جب” اسماعیل” آئیں تو کہنا “اپنے گھر کی چوکھٹ کو قائم رکھیں-اس دوران “بیت اللہ” کی تعمیر بھی عمل میں آئی تھی-

“رحمت اللعالمین صلی اللّٰہ علیہ وسلم”ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام”کی دعاؤں کا ثمر ہیں”-

“حضرت ابراہیم علیہ السلام”کے دو بیٹے ہوئے- بڑے بیٹے” حضرت اسماعیل علیہ السلام” بی بی ہاجرہ علیہا السلام” سے جو مصر کی شہزادی تھیں-دوسرے بےبیٹے”حضرت اسحاق علیہ السلام” جو”بی بی سارہ علیہا السلام”سے ہوئے-

“حضرت اسحاق علیہ السلام” کے دو بیٹے ہوئے- ” عیسو”اور یعقوب” “یعقوب علیہ السلام”کا اصل نام” اسرائیل” تھا٫جس کے معنی ہیں “اللّٰہ کا بندہ”اور یہی نام مشہور ہوا-چنانچہ “یعقوب علیہ السلام” کے “12”بیٹے ہوئے تو ان کی اولادوں کو” بنی اسرائیل” کہا جا نے لگا- انہی”12″بیٹوں سے” بنی اسرائیل”کے”12″ قبائل وجود میں آئے-سارے انبیاء” بنی اسرائیل” میں ہی ہوئے سوائے(one n only)میرے نبی”خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کے( الحمدللہ)

“قرآن مجید” نے”حضرت ابراہیم علیہ السلام” اور انکے خاندان کی تمام “ادائیں” جو حج اور عمرے میں ادا کی جاتی ہیں اور تمام “دعائیں” بھی نقل فرمائی ہیں-

ترجمہ:اور یاد کرو وہ وقت جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام” دونوں نے مل کر بیت اللہ کی تعمیر شروع کی- ان کی دعا یہ تھی”اے اللہ! اس گھر کو قبول فرما اور اس میں برکت عطاء فرما٫ اور وہ دونوں اسلام پر جئیں اور اسلام پر مریں اور انکی وفات کے بعد ان کی اولاد کو یہ دولت حاصل ہو-دنیا میں اس دعوت کے علمبردار بن کر رہیں٫اور اللّٰہ تعالٰی”انکی اولاد میں ایک ایسا نبی پیدا کرے جو اپنے جد اعلیٰ”حضرت ابراہیم علیہ السلام” کی دعوت کو ازسرنو زندہ کرے اور اس کام کی تکمیل کرے جس کو وہ شروع کر رہے ہیں- ( البقرہ آیت نمبر 127سے129)

“زبور”میں نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا تذکرہ”

“حضرت داؤد علیہ السلام” کو”زبور” عطاء ہوئ- اس کے اندر بھی آئندہ پیدا ہونے والے ایک “عظیم الشان رسول” کی خبر ان الفاظ میں دی گئی ہے-

” جس پتھر کو معماروں نے رد کیا٫ وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا٫ یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظروں میں عجیب ہے-(زبور118-22)

اس اقتباس سے چند باتیں ایسی نمایاں ہوتی ہیں جو آنے والے نبی کی علامت ہیں-مثلا: “قصر نبوت” کی تعمیر میں جو لوگ نظر انداز ہوئے ان میں یہ پیغمبر آئے گا- دیکھا جائے تو”بنی اسرائیل” میں پےدرپے “انبیاء” آئے جبکہ”بنی اسماعیل” میں کوئ “نبی یا رسول” مبعوث نہیں ہوئے سوائے”میرے نبی جو نبیء کامل ہوئے-

الغرض”نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کا ذکر تمام مذاہب میں موجود ہے-

“اے نبی پیارے نبی” سنت آپ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کی دنیا و دین”

“آپ ہی شفاعت کی امان” اے”رحمت للعالمین”

حوالہ: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کورس”

مرسلہ: خولہ بنت سلیمان-

“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین-

اپنا تبصرہ بھیجیں