نا جائز کمائی سے جہیز دینے کا کیا حکم ہے؟

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته!
میری خالہ کی بیٹی کا رشتہ میرے دیور کے ساتھ کیا جا رہا ہے بتایا جا رہا ہے بہت جہیز دیا جائے گا میری ساس اس رشتہ سے بہت خوش ہے مجھے ایک مسئلہ نظر آرہا ہے کہ لڑکی کا باپ حرام کما رہا ہے۔اور اس بات کا یقین ہے۔ اس بارے میں میرے کیا فرائض ہیں کیا حرام کا جہیز اگر گھر آ جائے تو مجھےکیا کرنا چاہیے ۔میں یہ پوئنٹ اُٹھاؤ تو رشتہ ٹوٹ بھی سکتا ہے اگر نہ بھی ٹوٹے تو میری اس لڑکی کے ساتھ رشتہ داری خراب ہو جائے گی آپ کی کیا رائے ہے؟

الجواب باسم ملہم الصواب۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
واضح رہے کہ حرام کمائی کے علاوہ اگر ان کی حلال کمائی بھی ہے تو یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ حرام کمائی سے ہی جہیز دے رہے ہیں ۔
اگر صرف حرام کی ہی کمائی ہو تو آپ کی اتنی ذمہ داری ہےکہ گھر والوں کو سمجھائیں کہ رشتہ اچھا ہے لیکن وہ جہیز نہ لیں اور بتا بھی دیں کہ ان کی ناجائز کمائی ہےاس سے جہیز لینا مناسب نہیں ہے مگر رشتہ توڑنے کی کوشش نہ کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات

1-عن جابر ، قال: ” لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء “.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی سود کھانے والے پر اور سود کھلانے والے پر اور سود لکھنے والے پر اور سود کے گواہوں پر اور فرمایا: وہ سب برابر ہیں۔
(صحیح مسلم ،باب لَعْنِ آكِلِ الرِّبَا وَمُؤْكِلِهِ:
– 4093)

2-عن أبي حرة الرقاشي عن عمہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا، ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ رواہ البیہقي في شعب الإیمان والدارقطني في المجتبی (مشکاة شریف ص 255)
ترجمہ :کسی مسلمان کا مال اس کی دلی رضا و خوشی کے بغیر لینا حلال نہیں۔“

3-قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن المسألة لا تحل ت لغنی ولا لذي مرة سوي إلا لذي فقر مدقع أوغرم مفظع ، الحدیث رواہ الترمذي (مشکاة شریف، ص: 163)
ترجمہ :کسی مالدار کے لیے مانگنا جائز نہیں نہ کسی ہٹے کٹے صحیح سالم آدمی کے لیے سوائے جان لیوا فقر والے کے اور کسی بھاری تاوان میں دبے شخص کے۔

4-سود کا استعمال حرام اور گناہ ہے، اس سے بیٹی کو جہیز دینا بھی جائز نہیں۔”
( آپ کے مسائل اور ان کا حل (مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، الشہید:2000ء) سود کی رقم کا مصرف، ج:7، ص:344، ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط
واللہ اعلم بالصواب
8 صفر 1444ھ
5 ستمبر 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں