پیغمبروں کا انسانوں میں سے ہونا کیوں ضروری ہے؟

اس کا جواب سورۃا لانعام میں دیا گیاہے۔
یہ ایک سوال ہے جس کا سورہ انعام آیت نمبر ۸ اور ۹ میں جواب دیا گیا ہے۔ فرمایا کہ انسانوں میں سے رسول نہ بھیجا جائے تو آپ خود بتائیں کہ کس مخلوق سے بھیجا جائے؟اگر کہو کہ جنات میں سے تو جنات، تو انسان کو نظر نہیں آتے اور جب نظر آتے ہیں تو یا تو اپنی اصلی صورت میں نظر آتے ہیں یا انسانی صورت میں۔ اگر اپنی اصلی صورت میں نظر آئیں تو انسان ڈر کے مارے بے ہوش ہی ہو جائے اور اگر انسانی صورت میں نظر آئے تو وہی بات کہ انسانی صورت میں آنا ہی انسان کے لیے قابل برداشت ہوا تو کیوں نہ انسانوں میں سے ہی پیغمبر بھیجے جائیں۔ اور اگر کہو کہ پیغمبر کو نورانی مخلوق یعنی فرشتوں میں سے آنا چاہیے تو اس کے اندر بھی وہی سوال پیدا ہوں گے کہ فرشتہ اگر اپنی اصل شکل و جسامت میں ظاہر ہوں تو انسان برداشت نہ کر پائیں۔ مارے رعب و دہشت کے دم نکل جائے۔ (یہ تو صرف انبیائے کرام علیہم السلام کا ظرف ہوتاہے کہ جو اصل صورت میں فرشتوں کی رویت کا تحمل کرسکتے ہیں۔ بلکہ انبیائے کرام میں سے بھی صرف جناب نبی کریم ﷺکے بارے میں ثابت ہے کہ آپ نے فرشتہ کو اپنی اصل صورت میں دو سے تین مرتبہ دیکھا اور کسی نبی کی نسبت ایک مرتبہ بھی ثابت نہیں) اور اگر یوں کہو کہ فرشتے آئیں لیکن انسانی صورت میں تو بات جہاں سے چلی تھی وہیں پہنچ گئی اور مدعیٰ ثابت ہوگیا کہ پیغمبروں کا انسانوں کی جنس سے ہی آنا ضروری ہے۔ {وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ} [الأنعام: 9]
’’اور اگر بالفرض ہم رسول بنا کر بھیجتے کسی فرشتے کو تو وہ بھی آدمی ہی کی صورت میں ہوتا اور ان کو اسی شبہ میں ڈالتے جس میں اب پڑ رہے ہیں‘‘ ۔ ( از گلدستہ قرآن )

اپنا تبصرہ بھیجیں