تحریر و تخریج: ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی
عالمی سطح پر پی ایچ ڈی Doctor of Philosophy (PhD) یا ڈاکٹریٹ کی ڈگری کو بہت عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پی ایچ ڈی کیلئے عمومی طور پر PhD کا مخفف ہی استعمال کیا جاتا ہے مگر بعض یونیورسٹیاں مثلاً یونیورسٹی آف آکسفورڈ اس کیلئے DPhil کا مخفف بھی استعمال کرتی ہیں۔پی ایچ ڈی ایک ریسرچ ڈگری ہے اورعمومی طور پر سائنسی تحقیق کرنے کیلئے اسے ایک باضابطہ سند سمجھا جاتا ہے۔ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک طالبعلم میں سائنسی تحقیق کرنے کے صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ آسان الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری سائنسی تحقیق کرنے کیلئے ایک لائسنس کی مانند ہے اور پی ایچ ڈی ڈگری کا مقصد یہ ہے کہ ایک طالبعلم باضابطہ طور پر پی ایچ ڈی سپروائژر کی سرکردگی میں تحقیق کرنے کے مراحل سے گزر جائے تاکہ اس کو اپنے سائنسی شعبے میں تحقیق کرنا آجائے۔
پی ایچ ڈی کی ڈگری کو پورا کرنے کیلئے عمومی طور پر تین سے چار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہو اور یہ عرصہ بعض یونیورسٹیوں میں پانچ سال تک بھی چلا جاتا ہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے اندر آپ کو کچھ کورسس بھی لینے ہوتے ہیں جو کہ طالبعلم کی سائنسی اور تحقیقی استعداد کو بڑھانے میں مدد دیتے ہیں مثلاً ریسرچ پریکٹس اور ایتھکس Research Practice and Ethics کا مضمون ایک لازمی کورس ہوتا ہے جس کے اندر اس کو تحقیق کرنے کے طریقہ کار اور تحقیق سے متعلق اخلاقی اصولوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ نیز کچھ یونیورسٹیوں میں تحقیق کے ساتھ کچھ تدریس کی ذمہ داریاں بھی پی ایچ ڈی کرنے والے محققین کو تفویض کردی جاتی ہیں جو ان کی تدریسی صلاحیتوں کو مزید جِلا بخشتی ہیں۔
پی ایچ ڈی کےتین سے چار سال کےعرصے کے دوران طالبعلم کو اپنے شعبے سے متعلق نئے علم کی تخلیق اور تشریح Creation and Interpretation of New Knowledge کرنی ہوتی ہے، نیز پرانی تھیوری پر نظر ثانی یا اس کی ترقی پر بھی کام کیا جاسکتا ہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کی ایک لازمی ضرورت پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جسے PhD Thesis or Dissertation بھی کہا جاتا ہے۔اگر ہم کسی پی ایچ ڈی کے طالبعلم کے روز وشب کا مشاہدہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تحقیق کرنا اس کا بنیادی کام ہے جس کے اندر سب سے پہلے اُس کو اپنے شعبے سے متعلق لٹریچر ریویو کرکے ریسرچ گیپ Research Gap نکالنا ہوتا ہے یعنی اس کو یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ اس وقت تک اس کے متعلقہ سائنسی مضمون میں وہ کون سی سائنسی مسائل Scientific Problem ہیں جن پر کام کرنا باقی ہے ، اور موجودہ سائنسی تحقیق میں کیا کچھ نقائص ہیں یا کہاں سائنسی تحقیق میں بہتری کی گنجائش ہے؟ اگر اُن نقائص اور سائنسی تحقیق میں بہتری کی گنجائش کی صحیح طور پر نشاندہی ہوجاتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ طالبعلم ایک صحیح رُخ پر اپنی تحقیق شروع کررہا ہے۔اسے آسان الفاظ میں Reinventing the Wheel یعنی پہیے کی دوبارہ ایجاد سے تعبیر کرسکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی سائنسدان اور محقق کو دوبارہ پہیے کی ایجاد نہیں کرنا بلکہ اس کو سب سے پہلے State-of-the-Art یعنی اب تک کی گئی سائنسی پیشرفت سے آگاہ ہونا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنی تحقیق اُس جگہ سے شروع کرسکے جہاں پر دنیا آج سائنسی لحاظ سےکھڑی ہے ۔اسی طریقے سےیہ بات پی ایچ ڈی طالبعلم سے یہ پوچھی جاتی ہے کہ بتاؤ تمہارے کام میں جدت Novelty کا کیا پہلو ہے جس سے نئے علم کی تخلیق ہوتی ہواور تمہارے سارے تحقیقی کام میں سائنسی طور پر تمہارا کیا Technical Contribution ہوگا۔
اس کے بعد پی ایچ ڈی میں تحقیق کا دوسرا اور اصلی مرحلہ شروع ہوتا ہے جس کے اندر طالبعلم کوسائنسی پرابلم پر کام کرنا ہوتاہے اور اپنی طرف سے سوچ بچار و تحقیق کرکےنئے علم کی تخلیق یا تشریح کرنی ہوتی ہے اور اس سائنسی تحقیق کے نتائج کو سائنسی مقالہ کی صورت میں سائنسی جرائد میں چھاپنا ہوتا ہے۔چونکہ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے اندر طالبعلم تحقیق کرنا سیکھ رہا ہوتا ہے لہذابعض مرتبہ یہ تحقیق اس پایہ کی نہیں ہوتی جو کہ تجربہ کارپروفیسرز اور محققین کررہے ہوتے ہیں۔ہاں بعض صورتوں میں کچھ طالبعلم اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری کے دوران ایسی تحقیقات کرپاتے ہیں جو کہ عالمی سطح پر بڑی پذیرائی حاصل کر پاتی ہیں۔ اسی طریقے سے پی ایچ ڈی ڈگری کے تین سے چار سال کے عرصے کے اندر طالبعلم دو سے تین سائنسی پرابلمز پر کام کرتا ہے اور اس سارے عمل سے گزرنے کے بعد اس کو سائنسی تحقیق کی شُد بُد حاصل ہوجاتی ہے۔ اور جب پی ایچ ڈی سپروائژر یہ سمجھتا ہے کہ طالبعلم کا سائنسی تحقیقی کام اس قابل ہوگیا ہے تو باقاعدہ ایک ڈیفینس کے انعقاد کے ذریعے اس طالبعلم کو موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ پی ایچ ڈی پرکھنے والی کمیٹی کے سامنے اپنا سائنسی تحقیقی کام پیش کرے ، اس کو ڈیفینڈ کرے اور پھر کامیابی کی صورت میں یہ کمیٹی اس کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کردیتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں ہر معیار کی یونیورسٹیاں موجود ہیں، نیز ان یونیورسٹیوں میں ہرطرح کے پروفیسرز ہوتے ہیں۔ اب یہ پی ایچ ڈی طالبعلم کو دیکھنا ہے کہ وہ کس معیار کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کررہا ہے اور اس کا پروفیسر یعنی سپروائژر اپنے سائنسی شعبے میں کتنا ماہر ہے۔ اگر یونیورسٹی اچھی ہوگی، پروفیسر اپنے سائنسی شعبے میں بھی مہارت رکھتا ہوگا اور طالبعلم کی صحیح رہنمائ کرے گا تو پی ایچ ڈی کرنے والے طالبعلم کی سائنسی استعداد بھی بنے گی اور اگر پروفیسر کی خود اپنی سائنسی صلاحیت اور استعداد نہیں ہوگی تو وہ طالبعلم میں بھی صحیح اور معیاری سائنسی استعداد نہیں بنا سکے گا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا اُس پروفیسر کے زیرِ اثر جتنے بھی طالبعلم پی ایچ ڈی کرکے نکلیں گے اُن کا کام عالمی سائنسی معیار کے مطابق نہ ہوگا۔ عمومی طور پر یہ مشاہدہ ہے کہ طالبعلم اپنے سپروائژر کے طریقہ تحقیق اور طرز پر ہی چلتےہیں الا ماشاءاللہ، لہذا کسی بھی طالبعلم کو پی ایچ ڈی سپروائژر بہت دیکھ بھال کر رکھنا چاہیے اور اُس پروفیسر ہی کو اپنا پی ایچ ڈی سپروائژر بنانا چاہیے جو کہ اعلیٰ معیار کی سائنسی تحقیق کررہا ہو ۔
اب ہم پی ایچ ڈی ڈگری کی اہمیت کی طرف آتے ہیں۔ جب پی ایچ ڈی کی ڈگری مل جاتی ہے تو ایک طالبعلم سائنسی تحقیق کرنے کا اہل ہوجاتا ہےتو اب اصل کام شروع ہوتا ہے۔ یعنی اب اس سائنسدان اور مُحَقِّق نے اپنی پوری زندگی سائنسی تحقیق کرتے گزارنی ہے۔لہذا کسی بھی سائنسدان اور مُحَقِّق کیلئے پی ایچ ڈی کی ڈگری اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ مروجہ سائنسی دنیا میں کوئی بھی سائنسی تحقیق کرنے کیلئے اس ڈگری کی عمومی طور پر ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً یونیورسٹیوں میں اگر اگلے عہدوں پر ترقی حاصل کرنی ہے یا کسی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی طالبعلموں کی سپرویژن کرنی ہے یا اگر کسی سائنسی گرانٹ یا فنڈنگ کیلئے عالمی سطح پر کوئی پروجیکٹ پروپوزل جمع کروانا ہے تو پی ایچ ڈی کی ڈگری لازمی ہے۔ایک بات ذہن میں رہے کہ لازمی نہیں ہے کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے بغیر دنیا میں کوئی سائنسی تحقیق کرہی نہیں سکتا۔دنیا کے اندر ہمیں کئی ایسی مثالیں مل جائیں گی جس کے اندر سائنسدانوں اور محققین نے بغیر پی ایچ ڈی ڈگری کے دنیا کی بہترین سائنسی تحقیق اور ایجادات کیں مگر عمومی طور پر سائنسی تحقیق کرنے کیلئے پی ایچ ڈی کی ڈگری کی اپنی اہمیت وافادیت ہے۔
کسی ملک کی ترقی کا اندازہ آپ وہاں پر ہونے والی سائنسی تحقیق کی بنیاد پر کرسکتے ہیں۔ جس ملک میں جتنی زیادہ سائنسی تحقیق ہوگی وہ ملک دنیا میں اتنی ہی عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ، دنیا پر اُسی ملک کا اثر ورسوخ ہوگا اور اس سائنسی تحقیق کی وجہ سے اس ملک کی معیشت بھی مضبوط ہوگی اور عوام بھی خوشحال ہوں گے۔یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس ملک میں جتنے زیادہ پی ایچ ڈی ہوں گے وہ ملک اتنی زیادہ سائنسی تحقیق کی طرف توجہ دے رہا ہوگا مگر یہاں پر ایک بات بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ محض پی ایچ ڈی کی تعداد بڑھانے سے کسی ملک میں سائنسی ترقی نہ ہوسکے گی جب تک کہ وہ پی ایچ ڈی اعلیٰ معیار کی نہ ہو۔ اگر ایک ملک میں بہت کم پی ایچ ڈی ہیں مگر وہ سائنسدان اعلیٰ سائنسی معیار کے مطابق تحقیق کررہے ہیں تو وہ تھوڑے پی ایچ ڈی سائنسدان آگے چل کر دوسرے طالبعلوں کو بھی اعلیٰ معیار کی پی ایچ ڈی کروائیں گے۔ اس کے برعکس اگر ایک ملک سائنسی معیار پر تو توجہ نہ دے اور محض پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کرنے والوں کی تعداد بڑھائے تو اس کا الٹا اثر پڑے گا اور ملک سائنسی اعتبار سے مزید پستی کی طرف جائے گا۔یعنی محض پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حصول مقصد نہ ہو کہ ”ڈاکٹر“ کاسابِقَہ نام کے ساتھ لگ جائے بلکہ اصل مقصد اعلیٰ معیار کی سائنسی تحقیق ہو۔ لہذا خلاصہ یہ ہوا کہ ہمیں بحیثیت ِ قوم اعلیٰ معیار کی سائنسی تحقیق کی طرف توجہ کی ضرورت ہے اور اور اس سلسلے میں ایسے پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز تربیت دینے ہوں گا جو کہ اعلیٰ معیار کی سائنسی تحقیق کرنے کے قابل ہوں یعنی پی ایچ ڈی کی تعداد کے بجائے ان کے سائنسی معیار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اُس کیلئے ایک پیمانہ یہ ہے کہ ہماری سائنسی تحقیق دنیا کے بہترین اور اعلیٰ معیار کے سائنسی جرائد میں چھپے اور معاشرے ، ملک اور انسانیت کیلئے مفید ہو۔