قربانی کے پیسے غریب رشتے دار کو دینے کا حکم

سوال:السلام علیکم!
باجی! کسی پر قربانی ہو اور اس کے قریبی رشتے دار کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے تو وہ قربانی کے پیسے انہیں دے سکتی ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ قربانی اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب قربانی کے تین دنوں میں آدمی صاحب نصاب ہو،لہذا اب اگر کسی شخص نے قربانی کے ایام سے پہلے اپنے پیسے مستحق رشتہ دار کو ضرورت پڑنے پر دے دیے کہ اس کے بعد یہ صاحب نصاب ہی نہ رہے تو ایسی صورت میں قربانی ان کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گی،لیکن اس کے باوجود صاحب نصاب بنتے ہیں تو پھر ان پر قربانی لازم ہوگی اور قربانی کرنا ہوگی۔
_______
دلائل

1۔لن ینال الله لحومھا ولادماؤھا ولکن یناله التقوی منکم۔
(سورة حج:34)

ترجمہ: ”ان کے خون اور ان کے گوشت اللہ کے پاس ہرگز نہیں پہنچتے، لیکن تمہارا تقویٰ اس کے پاس پہنچتا ہے“۔

2۔وعن ابی ھریرة رضی اللہ عنه ان رسول الله صلی الله علیه وسلم قال: من کان له سعة ولم یضح فلایقربن مصلانا۔
(سنن ابن ماجة:ابواب الاضاحی، باب الاضاحی واجبة ھی ام لا:226)

ترجمہ:حضرت ابو ہریره رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو استطاعت کے باوجود بھی قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے“۔

3۔عن عائشة رضی الله عنھا قالت: قال رسول اللّٰهﷺ ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الی اللّٰہ من اہراق الدم وانه لیأتی یوم القیامة بقرونها وأشعارها وأظلافها وان الدم لیقع من اللّٰه بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبوا بها نفسا“۔
(مشکوٰة المصابیح:کتاب الصلاة، باب فی الاضحیة، الفصل الثانی،ص:128)
ترجمہ:۔”حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ :ابن آدم (انسان) نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہذا تم اس کی وجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دلوں کو خوش کرو۔“

4۔”وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان“.

(الفتاوى الهندية:191/1)

5۔وشرط وجوبها اليسار عند أصحابنا رحمهم الله، والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم، أو عشرون ديناراً، أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومتاعه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من متاعه أو رقيقه أو … أو متاع….. أو لغيرها فإنها…. في داره. وفي «الأجناس» إن جاء يوم الأضحى وله مائتا درهم أو أكثر ولا مال غيره فهلك ذلك لم تجب عليه الأضحية، وكذلك لو نقص عن المائتين، ولو جاء يوم الأضحى ولا مال له ثم استفاد مائتي درهم فعليه الأضحية۔

(المحیط البرھانی: 86/6، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم
23 جون 2023ء
5ذو الحجہ 1444ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں