12 ربیع الاول کے علاوہ کسی تاریخ میں میلاد منانا

فتویٰ نمبر:3088

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

کیا میلاد کرنا جائز ہے؟ اگر بارہ ربیع الاول کی جگہ کسی اور تاریخ میں کریں اور اس میں غیر شرعی بات نہ ہو۔

مدلل جواب چاہیے۔

الجواب حامدا و مصليا

سوال کے باقاعدہ جواب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہے کہ نبی کریم ﷺ کی پیدائش تمام انسانیت کے لیے نہ ختم ہونے والی خیر اور برکات کے سلسلے کی ابتدا تھی جو آپ ﷺ کی بعثت، آپ ﷺ کی رسالت اور تبلیغِ دین متین کے ذریعہ عروج پر پہنچ گئی۔ قیامت تک آپ ﷺ کی رسالت کے فیوض اور برکات باقی رہیں گے۔ انسان جتنا بھی اس نعمت کا شکر ادا کرے، کم ہے۔ 

آپ ﷺ کی پیدائش کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے احسان جان کر اس پر خوش ہونا ایمان کا تقاضا ہے۔ مگر اس سے بڑھ کر ایمان تقاضا کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات اور سنت کو اپنے زندگی کا مستقل حصہ بنایا جائے، کیونکہ سنتِ رسول ﷺ ہی وحی الٰہی کی صحیح ترجمانی کرتی ہے اور اللہ کی رضا کی طرف لے جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ۔” یہ بھی ارشاد ہوا: ” کہہ دیجیے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابع داری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے” (۲)

اس تمہید کے بعد اصل سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے: 

آنحضرت ﷺ کے حالات مبارکہ اور فضائل و کمالات طیبہ کا بیان کرنا بہت اچھا اور موجب خیروبرکت ہے(۳) مگر مجلس میلاد جس صورت سے آج کل مروج ہے اس میں بہت سے غیر شرعی امور در آئے ہیں کیونکہ اول تو اس نام سے انعقادِ مجلس کرنا یا اس کی تاکید کرنا نہ آپ ﷺ کی طرف سے ثابت ہے اور نہ ہی یہ سلف صالحین کا معمول تھا۔(۴) اور اگر فرض کر کے محفل میلاد اس طریقے سے منعقد کی جائے کہ اس میں کسی قسم کی شرعی قباحت نہ ہو، تب بھی اس سے اجتناب کرنا ہمارے دور میں ضروری ہو گیا یے؛ کیونکہ جس جائز عمل سے عوام کے فتنے اور مفسدات میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو خواص کے لیے بھی وہ عمل ممنوع ہوجاتا ہے. (۵)

• (۱) وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (سورۃ الحشر: ۷)

• (۲) قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (سورۃ آل عمران: ۳۱)

• (۳) والاحتفال بذکر الولادۃ الشریفۃ إن کان خالیاً من البدعات المروجۃ فہو جائز بل مندوب کسائر أذکارہ علیہ السلام۔ (إمداد الفتاویٰ: ۶/۳۲۷)

• (۴) ان عمل المولود بدعۃ لم یقل بہ ولم یفعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والخلفاء والائمۃ (کذافی الشرعۃ الا لھیۃ بحوالہ راہ سنت: ۱۶۴)

• (۵) ملاحظہ: فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ: ۱۴۱

فقط ۔ و اللہ اعلم 

قمری تاریخ: یکم ربیع الثانی 1440ھ

عیسوی تاریخ: 9 دسمبر 2018

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں