کاروباری معاملات میں قرض کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ اس موقع پر بعض اوقات تو صرف ساکھ (Goodwill) کی وجہ سے قرض مل جاتا ہے، لیکن بعض اوقات قرض دینے والا اپنے قرض کو محفوظ بنانا چاہ رہا ہوتا ہے۔ اور یہ جذبہ شریعت میں قابل مذمت بھی نہیں۔ وہ اپنے مال کو ضائع ہونے سے بچانا چاہتا ہے تو اس کے لیے شریعت نے مختلف صورتوں کی اجازت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرامؓ کا اس پر عمل رہا ہے۔
قرض کو محفوظ کرنے کی ایک صورت شخصی ضمانت کی ہے۔ دوسری صورت گروی یا رہن رکھوانے کی ہے۔ تیسری صورت حوالے کی ہے۔ یہ تمام صورتیں شرعاً جائز ہیں اور ہماری مارکیٹوں میں رائج بھی ہیں۔ ہم اپنی کاروباری زندگی میں یہ تمام معاملات کر رہے ہوتے ہیں، لیکن اس بات کو سوچنے کی نوبت کم ہی آتی ہے کہ یہ معاملات شریعت کے مطابق ہو رہے ہیں یا نہیں؟ یاد رکھیے! اسلام کی تعلیمات صرف عبادات تک محدود نہیں۔ عبادات تو اسلامی تعلیمات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ جسے ہم تقریباً 20 فیصد کہہ سکتے ہیں، لہذا ہمیں اسلام کے وہ احکامات جن کا تعلق کاروبار سے ہے، سیکھنا چاہیے، سمجھنا چاہیے اور عمل کرنا چاہیے، تبھی ہم ایک مکمل مسلمان بن سکتے ہیں۔ آئیے! آج ہم قرضوں کو محفوظ بنانے کی مختلف صورتوں میں سے ’’رہن‘‘ سے متعلق شریعت کی دی ہوئی ہدایات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
رہن کیا ہے؟
ڈکشنری میں رہن کے معنی ’’روکنے‘‘ کے آتے ہیں۔ فقہ کی زبان میں ہم اسے اس طرح سمجھ سکتے ہیں
’’رہن سے مراد وہ مال ہے جو قرض لینے والا اپنے قرض کی ادائیگی کی یقین دہانی کے لیے قرض دینے والے کے پاس رکھواتا ہے۔‘‘ مثال کے طور پر عامر قرض لینے کے لیے آصف کے پاس آتا ہے۔ عامر 10 ہزار روپے قرض مانگتا ہے۔ آصف کہتا ہے میں کیسے یقین کر لوں کہ تم قرض واپس کر دو گے۔ تم کوئی چیز میرے پاس رکھواؤ۔ جب قرض ادا کر دو تو لے جانا۔ عامر اپنا موبائل، جس کی قیمت، مثلاً: 8 ہزار ہے آصف کے پاس رکھوا دیتا ہے۔ اور آصف عامر کو 10 ہزار روپے قرض دے دیتا ہے۔ اب یہ معاملہ رہن کا ہے۔ جس میں موبائل کو رہن کے طور پر رکھوایا گیا ہے۔
رہن کی ضرورت و اہمیت
معاشرہ نام ہے انسانوں کے مل جل کر رہنے کا۔ جب انسان آپس میں مل جل کر رہتے ہیں تو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ اس مدد کی ایک صورت ضرورت کے وقت دوسرے کو قرض دینا بھی ہے۔ قرض دینے کے وقت ایک خوف بہرحال ہوتا ہے کہ یہ قرض لینے والا قرض واپس کرے گا یا نہیں؟ اب یا تو قرض ہی نہ دیا جائے۔ اس طرح تو آپس میں مدد کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا۔ کیونکہ زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جب انسان کو قرض لینا پڑ جاتا ہے۔ دوسری صورت جو قرض لینے والے اور دینے والے کے لیے قابل عمل اور فائدہ مند ہے۔ اس کے نتیجے میں قرض کے ضائع ہو جانے کا خوف کم ہو جاتا ہے۔ وہ یہ کہ قرض لینے والے سے کوئی مال لے کر رکھ لیا جائے۔ اس طرح قرض لینے والے کی ضرورت بھی پوری ہو گئی اور قرض دینے والا بھی اپنے قرض کے ضائع ہونے سے بے فکر ہو گیا۔ یہ ضرورت رہن سے پوری ہوتی ہے۔
شریعت میں رہن
قرآن مجید میں سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالی نے قرض کے معاملے کے بیان میں رہن کا ذکر فرما کر اسے قانونی طور پر ناصرف جائز قرار دیا بلکہ ترغیب بھی دی ہے۔
یہ بات احادیث کی کتابوں میں موجود ہے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود ادھار کے بدلے میں زرہ رہن میں رکھوائی، لہذا شریعت میں رہن کا معاملہ کرنا جائز ہے اور ضرورت کے وقت کرنے میںکوئی حرج نہیں ہے، لیکن ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ اس معاملے کو کرتے وقت اس سے متعلق مسائل کو سمجھیں تاکہ معاملہ شریعت کے مطابق ہو۔
رہن کا معاملہ کب کیا جا سکتا ہے؟
پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ ہم کب رہن کا معاملہ کر سکتے ہیں؟ رہن کی حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی مالی ذمہ داری کی ادائیگی کی یقین دہانی کے لیے کوئی مال دوسرے کے پاس رکھواتے ہیں۔ رہن قرض کے معاملے میں جائز ہے۔ اسی طرح کسی اور معاملے کے نتیجے میں مالی ذمہ دار ی آ جائے تو اس کے لیے بھی رہن رکھوایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ادھار چیز بیچ دی۔ خریدار بعد میں ادائیگی کرے گا۔ اب خریدار کے ذمہ چیز کی قیمت بعد میں دینا لازم ہے۔ اب بیچنے والا اس سے رہن کا معاملہ کر سکتا ہے۔ اس کی اور بھی صورتیں ہو سکتی ہیں جیسے کرایہ داری کے معاملے میں کرایہ کی ادائیگی کا اطمینان کرنے کے لیے رہن کے طور پر کوئی چیز رکھ لی جائے تو وہ تمام صورتیں جس میں کوئی مالی ذمہ داری ذمہ میں آ جائے تو اس کی ادائیگی کا یقین دلانے کے لیے رہن کا معاملہ کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے! ایسے مواقع جہاں ذمہ داری نہ ہو، وہاں رہن بھی نہیں رکھوایا جا سکتا، جیسے: امانت کی صورت ہے کہ کسی کے پاس کوئی چیز امانت کے طور پر رکھوائی اور پھر یہ کہے کہ پتا نہیں تم مجھے واپس کرو یا نہ کرو۔ اس چیز کے یقین کے لیے کہ تم مجھے واپس کرو گے، رہن رکھواؤ۔ ایسے موقع پر رہن کا معاملہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ امانت میں ذمہ داری نہیں ہے۔ اس نے آپ کی چیز حفاظت سے رکھی پھر بھی نقصان ہو گیا تو وہ ذمہ دار نہیں ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مضاربہ یا مشارکہ کے طور پر سرمایہ دیا۔ یہ سرمایہ پارٹنر کے پاس امانت ہوتا ہے۔ اب کوئی کہے کہ میں تمہیں سرمایہ تو دے دیتا ہوں، لیکن تم میرا سرمایہ واپس کرو گے، نفع مجھے دو گے۔ اس کی یقین دہانی کے لیے کوئی چیز میرے پاس رہن کے طور پر رکھواؤ۔ اس چیز کی اجازت نہیں ہو گی۔
کس چیز کو رہن میں رکھوایا جا سکتا ہے؟
رہن رکھواتے وقت جس چیز کو رہن کے طور پر رکھا جا رہا ہے اس میں ان باتو ں کا خیال رکھنا چاہیے:
1 وہ چیز شرعی اور قانونی طور پر مارکیٹ ویلیو رکھتی ہو۔ یعنی ایسی چیز ہو جس کے تبادلے کی ملکی قانون اور شریعت اجازت دیتے ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہو گا کہ شراب یا دیگر غیر قانونی اشیا کو رہن کے طور نہیں رکھوایا جا سکتا۔
2 وہ چیز معاملے کے وقت موجود ہو۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی چیز جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی، اس کو گروی میں نہیں رکھوایا جا سکتا۔ جیسے درختوں پر ابھی پھل نہیں آئے اور انہیں رہن رکھوایا جائے۔
3 اس چیز پر قبضہ کروایا جا سکتا ہو۔ یعنی رہن رکھوانے والا، رکھنے والے کے قبضے میں دے سکتا ہو۔ مثال کے طور پر اگر کسی کی کار چوری ہو گئی اب وہ اسے رہن پر رکھوانا چاہ رہا ہے تو یہ صحیح نہیں ہو گا۔
4 وہ چیز معلوم ہو۔ مطلب یہ کہ ایسی چیز کو رہن پر نہیں رکھوایا جا سکتا جس کی حقیقت، مقدار، قیمت معلوم نہیں ہے۔ جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ میں اس گھر کا کچھ حصہ تمہارے پاس رہن کے طور پر رکھواتا ہوں۔ اب کتنا اورکون سا حصہ ہے؟ یہ بات معلوم نہیں ہے تو اس طرح رہن پر رکھوانا درست نہیں ہو گا۔
5 ایسی دو چیزیں جو قدرتی طور پر ایک ساتھ ہیں۔ ان میں سے ایک کو علیحدہ طور پر رہن میں نہیں رکھوایا جا سکتا۔ جیسے درخت اور پھل یا زمین اور درخت۔ اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ میں یہ درخت رہن کے طور پر رکھواتا ہوں، لیکن یہ پھل نہیں۔ یا اسی طرح یہ درخت رہن کے طور پر رکھواتا ہوں یہ زمین نہیں۔ تو یہ الگ سے رہن کے طور پر نہیں رکھوائے جا سکتے۔ ہاں! دونوں کو ایک ساتھ رکھوا دے یہ ہو سکتا ہے۔
6 کوئی چیز (Asset) تو رہن کے طور پر رکھوائی جا سکتی ہے، لیکن کسی چیز کے استعمال کا حق (Usufruct) رہن کے طور پر نہیں رکھوایا جا سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ میں کوئی چیز تو رہن کے طور پر نہیں رکھواؤں گا ہاں یہ میری گاڑی کو چلانے کی اجازت دے دیتا ہوں تم یہ چلا سکتے ہو۔ یہ معاملہ رہن کے طور پر نہیں ہو سکتا۔
7 وہ چیز رہن رکھنے والے کے قبضے میں دے دینا بھی ضروری ہے۔ ایسا کرنا درست نہیں کہ ایک چیز رہن بھی ہو اور اسے رہن رکھنے والے کے قبضے میں بھی نہ دیا جائے۔
رہن کے معاملے کا نتیجہ کیا ہو گا؟
رہن کا معاملہ کرتے ہی، رہن رکھوانے والے کے ذمہ، رہن کے طور رکھوائی جانے والی چیز کو، قبضہ کروانا لازم ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر ’’کار‘‘ رہن کے طور پر رکھوائی جا رہی ہے تو اب اس کار کو رہن رکھنے والے کی کسٹڈی میں دے دیا جائے گا۔
یہ چیز اس کی کسٹڈی میں امانت کے طور پر رہے گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اس کے ذمہ ہو گی، لیکن یہ اسے استعمال نہیں کر سکتا۔ جب تک قرض وصول نہ ہو جائے یہ اپنے پاس رکھے گا۔ اس دوران اس چیز کو رہن رکھنے والے کی اجازت کے بغیر بیچا نہیں جا سکتا، کیونکہ اس کے ساتھ اس کا حق منسلک ہے۔ جب قرض وصول ہو جائے تو یہ چیز واپس مالک کو دے دی جائے گی۔ حفاظت کے باوجود اگر اس میں نقصان آ جائے تو اس کی ذمہ داری اس پر نہیں ہے۔
جب قرض کی ادائیگی کا وقت آ جائے اور رہن رکھوانے والا قرض ادا نہ کرے تو اس کی اجازت کے ساتھ اسے بیچا جائے گا اور قرض وصول کر لیا جائے گا۔
رہن پر رکھوائی گئی چیز کے اخراجات
وہ اخراجات جن کا تعلق اس چیز کی حفاظت سے ہے، وہ اخراجات رہن رکھنے والے کے ذمہ ہے۔ جیسے زیورات رہن کے طور پر رکھوائے۔ رہن رکھنے والا کہتا ہے کہ گھر پر تو حفاظت نہیں ہے ایسا کرتا ہوں انہیں ’’لاکرز‘‘ میں رکھوا دیتا ہوں۔ اب لاکرز میں رکھوانے پر ہونے والے اخراجات اسی کو دینا پڑیں گے۔ کیونکہ اس چیز کو حفاظت سے رکھنا اس کی ذمہ داری ہے۔
دوسری جانب وہ اخراجات جن کا تعلق چیز کے مالک ہونے کی وجہ سے ہیں۔ مثال کے طور پر اگرگھر رہن کے طور پر رکھوایا، اس پر اگر کوئی ٹیکس لگتا ہے یا کوئی جانور رہن کے طور پر رکھوایا، اس کی خوراک وغیرہ کے اخراجات ہیں۔ یہ تمام اخراجات مالک ہونے کی حیثیت سے رہن رکھوانے والے (مالک)کے ذمہ ہوں گے۔
گروی رکھی گئی چیز کے استعمال کا حکم
رہن رکھوانے والے کے لیے اس چیز کو استعمال کرنااور اس سے فائدہ اٹھانا اسی صورت میں درست ہے جب رہن رکھوانے والا (اصل مالک)اجازت دے دے۔ ورنہ رہن رکھنے والا اسے استعمال نہیں کر سکتا۔ رہن رکھنے والا، اس چیز کو استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا استعمال کرنا کسی نا کسی درجے میں اپنے قرض سے نفع کمانا ہے، جو سود میں داخل ہے۔
رہن کے مختصر احکامات آپ کے سامنے پیش کیے۔ یہ شریعت کا ایک معاملہ ہے جسے ہم اپنے ادھار اور قرض کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیے! زندگی ہم گزارتے ہیں، معاملات ہم کرتے ہیں لیکن وہ معاملہ جو شریعت کے اصولوں کے مطابق ہو جائے وہ عبادت بن جاتا ہے۔ وہ آخرت میں ہمارے لیے ثواب کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا گیا جو یہاں کاشت کر لیں گے کل اس کا پھل آخرت میں بہت بڑھ کر پا لیں گے۔ ذرا سوچیں! ہم کیا کاشت کر رہے ہیں؟ کہیں صرف اللہ کی نافرمانیاں تو نہیں ہیں؟ بڑا خسارا ہو جائے گا۔ ہم توبہ کر کے اپنی نافرمانیوں کو دھو کر قدم بڑھائیں اپنی زندگی کا ہر پل اللہ کی فرمانبرداری میں گزاریں یقین رکھیے! اللہ بہت قدر دان ہے۔ وہ کسی صورت ہمارے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔ اللہ پاک اخلاص کے ساتھ ہر لمحہ شریعت پر چلنے کی ہم سب کو توفیق بخشے، آمین۔
تحریر:مولانا شیخ نعمان