رفاہی ادارہ مستحقین کے لیے قرض کیسے لے

فتویٰ نمبر:471

سوال 1 ہماری جماعت کاٹھیا واڑ سنی وہرا جماعت نے زکوٰۃ کی رقم سے ایک بلڈنگ خریدنی ہے جو مستحقین کو دی جائے گی اب صورت حال یہ ہے کہ جماعت کے پاس زکوٰۃ کی رقم نہیں ہے، ہماری جماعت امریکا میں بھی ہے، ہم ان سے 20 لاکھ روپے قرض لے کر بلڈنگ خریدتے ہیں۔ یہ قرض زکوٰۃسے نہیں بلکہ فریش رقم سے ہو گا۔ بعد میں ان کو زکوٰۃ کی مد میں جمع شدہ رقم سے ادا کریں گے تو کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے؟

2 اگر زکوۃ کی رقم مستحق کو مالکانہ طور پر دے دی جائے، اس کے بعد اگر وہ مستحق یہ رقم کسی اور کو ہدیہ، ہبہ یا عطیہ کر دے تو اس وقت یہ رقم زکوۃ کی ہوگی یا فریش رقم ہوگی؟ 

جواب

1 یہ طریقہ درست نہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہوگا کہ ادارے نے جن مسکینوں کو گھر دینا طے کیا ہے ان سب کو یا ان میں سے کسی ایک کو متعین کر کے اس کی اجازت سے اس کے لیے قرض لیا جائے۔ پھر زکوۃ کی رقم آنے پر اس سے اس مسکین کا قرضہ اتار دے۔ 

2 اس وقت یہ زکوۃ کی رقم نہیں ہوگی کیونکہ ملکیت کی حیثیت میں تبدیلی عین شے میں تبدیلی کی طرح ہے۔ غیر مسلم کے ساتھ کرایہ داری کا معاملہ 

سوال

1 زید نے ایک عمارت کی زمین پچاس لاکھ روپے کی غیر مسلم سے خریدی، پیسے دے دیے اور رجسٹری بھی کروالی، اس شرط پر کہ جب غیر مسلم کے پاس پچاس لاکھ روپے آئیں گے تو غیرمسلم زید کو پیسے دے دے گا اور اپنی زمین واپس لے لے گا۔ اور جب تک پیسے نہیں دے گا اس وقت تک زمین کا ماہانہکرایا50,000 دے گا، زمین غیر مسلم کے قبضے میں ہی ہے، رجسٹری اگرچہ زید کے نام کرادی، تو کیا اس طرح معاملہ کرنا درست ہے؟ کیا زید اس طرح غیر مسلم سے ماہانہ کرایہ لے سکتا ہے؟ کسی نے زید کو منع کیا تو اس کا کہنا ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہے، برائے کرم مدلل جواب عطا فرمائیں۔ 

2 زید نے غیر مسلم سے پچاس لاکھ روپے میں اس شرط پر زمین خریدی کہ جب میرے پاس پیسے آئیں گے تو یہ زمین پچاس لاکھ میں ہی تجھے مجھ کو لوٹانی پڑے گی۔ کیا اس شرط کے ساتھ خریدنا جائزہے؟ 3 غیر مسلم نے زید سے زمین پچاس ہزار کراے پر لے لی، حالانکہ اس علاقے میں اتنی زمین کا کرایہ پچاس ہزار سالانہ چلتا ہے تو کیا اس طریقہ سے کرائے پر دینا جائز ہے؟ 

مسئلہ مذکورہ میں غیر مسلم نے زید کو زمین کا قبضہ دیا ہی نہیں ہے، صرف پیسے لے کر شرطیہ رجسڑی کرالی ہے، قبضہ غیرمسلم کا ہی ہے اور ماہانہ پچاس ہزار روپے کرایہ دیتاہے۔ (محمد یونس)

جواب

1,2مذکورہ شرط کے ساتھ خریداری کے معاملے کو فقہاے کرام رحمہم اللہ کی اصطلاح میں بیع الوفاء کہتے ہیں، جس کا حکم یہ ہے کہ اگر مبیع (بیچی گئی چیز) کی قیمت واپس کرنے پر مبیع لوٹانے کی شرط خریدو فروخت کے وقت لگائی جائے تو اس طرح بیع کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ بیع فاسد ہے۔ البتہ اگر خریداری سے پہلے یا بعد میں بطور وعدہ اس کا ذکر کر دیا جائے اور عقد میں کوئی شرط نہ لگائی جائے تو یہ معاملہ جائز ہوگا اور فریقین اپنے کیے گئے وعدہ کے پابند ہوںگے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ عقد میں یہ شرط لگائی گئی ہے کہ جب ہندو زمین کی قیمت واپس کردے گاتو مسلمان کا زمین واپس لوٹانا ضروری ہوگا، اس لیے یہ معاملہ شرعاًجائز نہیں۔ 

جہاں تک ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا تعلق ہے تو اس کا معاملات پر کوئی اثرنہیں پڑتا کیونکہ ہرمسلمان تمام معاملات(خواہ کسی بھی جگہ اور کسی شخص کے ساتھ کرے) کو شریعت کے مطابق بجالانے کا پابند ہے البتہ دارالحرب میں حربی سے سود لینے میں اختلاف ہے۔ بعض فقہائے کرام رحمہم اللہ اس کے جواز کے قائل ہیں، جبکہ جمہور فقہائے کرام رحمہم اللہ کے نزدیک حربی سے سود لینا جائز نہیں، نیز جن فقہائے کرام رحمہم اللہ کے نزدیک سودلینا جائز ہے، اس کے متعلق امداد الفتاوی (ج: 3ص:160)میں موجود حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرّہ کے فتوی کا خلاصہ یہ ہے کہ سود اگرچہ مسلمان کے لیے حربی سے اس کی رضامندی سے لینا ان فقہائے کرام رحمہم اللہ کے نزدیک جائز ہوگا، لیکن مسلمان کو سودی معاملہ کرنے کا گناہ ہوگا، کیونکہ سود کے جائز ہونے سے سودی معاملہ کرنے کا جواز لازم نہیں آتا۔ 

3 نمبر1 اور2 کے جواب میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق چونکہ یہ بیع درست نہیں ہوئی۔ اس لیے یہ حقیت میں قرض کا معاملہ ہے۔ جس میں زمین کی قیمت شرعاً قرض اور زمین بطور رہن(گروی) شمار ہوگی، اور گروی رکھی گئی چیز سے قرض دینے والے شخص کا کسی قسم کا نفع حاصل کرنا جائز نہیں، البتہ صورت مسئولہ میں مشتری کا اس زمین کو کرایہ وغیرہ پر دے کر نفع اٹھانا خلاف شرع ہے، کیونکہ یہ سود ہے، جس کی قرآن و حدیث میں شدید مذمت کی گئی ہے۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ چیز خریدنے کے بعد قبضہ کرنے سے پہلے اس کوکرایہ پر دینا جائز نہیںاور اب تک حاصل کی گئی رقم اصل قرض سے منہا ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں