روہنگیا مسلمانوں کا قصہ دردو اَلم اور عالمِ اسلام سے اپیل

بسم اللہ الرحمن الرحیم

برما، اراکان اور روہنگیا کا مختصر تعارف

  روہنگیا مسلمانوں کا قصہ دردو اَلم اور عالمِ اسلام سے اپیل

  تحریر: نور البشر محمد نورالحق

                                   

محل وقوع:

میانمار (برما) براعظم ایشیا کا زرخیز ترین ملک ہے اس کے مشرق میں تھائی لینڈ، لاؤس اور چین کے کچھ علاقے، مغرب میں خلیج بنگال اور آسام اور بھوٹان، جنوب میں ملائیشیاء اور بحر ہند جبکہ شمال میں کوہ ہمالیہ واقع ہے۔

آبادی:

برما کی موجودہ آبادی چھ کروڑ، دو لاکھ اسی ہزار افراد پر مشتمل ہے ، جن میں 75فیصد بدھ مت کے پیروکار، 22فیصد مسلمان اور باقی 3فیصد دیگر اقلیات ہیں۔

اراکان اور روہنگیا:

اراکان برما کے 14صوبوں میں سے ایک ہے، یہ دریائے ناف کے کنارے آباد ہے، یہ نہر بنگلہ دیش کے خطہ چٹاگانگ اور برما کے حصہ اراکان کے درمیان سرحد کی حیثیت رکھتا ہے۔

 یہاں عباسی خلیفہ ہارون رشید کے زمانے میں کچھ عرب تاجر آئے تھے، مقامی لوگوں کے ساتھ بودوباش اختیار کرنے کی وجہ سے یہاں اسلام پھیلا، یہاں کی قوم ’’روہنگیا‘‘ کہلائی اور ان کی زبان کو ’’روہنگیا زبان‘‘ کہا جانے لگا یہ 788 عیسوی کا واقعہ ہے، 1504   عیسوی میں یہاں کچھ ایرانی النسل باشندے بھی آباد ہوئے۔اسی طرح یہاں 13ویں صدی عیسوی میں ترکی النسل حضرات بھی  آئے۔ 1660عیسوی میں مغلیہ خاندان کے غوری (پٹھان) مسلمانوں نے بھی یہاں پناہ گزینی اختیار کی، اورنگزیب عالمگیر کے چھوٹے بھائی شاہ شجاع یہاں برسوں حکمرانی کرچکے ہیں ۔

روہنگیا مسلمان:

اراکان اور روہنگیا قوم کی ابتدا ’’اسلام‘‘ ہے یہ ابتدا میں ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست تھی جہاں کے سکوں اور سرکاری دستاویزات میں کلمہ اسلام کندہ ہوتا تھا۔ اس کے پڑوس میں نام نہاد امن و آشتی کا پرچار کرنے والے گوتم بدھ کے پجاریوں کا ملک واقع تھا یہ 1784عیسوی کی   بات ہے کہ اس وقت بدھست برمی راجہ بودوپھیہ نے شب خون مار کر ’’ارکان‘‘ پر اپنا تسلط جما لیا، اس طرح ’’ارکان‘‘ کی اسلامی ریاست کو ’’برما‘‘ کا ایک جز بنادیا گیا۔

اراکان ایک داستان لہو رنگ: 

جب1784عیسوی میں برمی راجہ بودوپھیہ نے ارکان پر قبضہ کیا تو بڑے پیمانے پر روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا۔1824عیسوی میں برطانیہ نے برما سمیت اراکان پر قبضہ کرلیا، 20ویں صدی کے نصف میں دوسری جنگ عظیم لڑی گئی جس میں مگھ جاپان کے ساتھ تھے، جبکہ مسلمانوں کی آزادی کی شرط پر برطانیہ کی حمایت کی تھی۔

مارچ 1942 ءمیں اراکان کے ضلع اکیاب(حالیہSittwe  )میں بدھسٹوں کی ایک انتہا پسند تنظیم کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف منظم انداز میں فسادات شروع ہوئے، یہ دہشت کا کھیل تقریباً3مہینے تک جاری رہا، مارچ1942 ؁ء سے جون1942ء تک تقریباً1,50,000(ڈیڑھ لاکھ) مسلمان شہید اور 5,00,000(پانچ لاکھ) مسلمان بے گھر ہوئے۔

4جنوری1948ءکو برطانوی اقتدار کا سورج برما سے بھی غروب ہوا۔ اس سے تقریبا6 ماہ قبل پاکستان اور ہندوستان کو بھی آزادی ملی۔

’’اراکان‘‘ کے مسلمانوں کا رجحان بلکہ پوری کوشش یہی تھی کہ اراکان کے خطہ کو برما کے ساتھ منسلک کرنے کے بجائے پاکستان کے ساتھ ملحق کیا جائے، اس سلسلے میں ایک وفد نے دہلی میں قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی، اس وفد میں مسٹر امراء میاں صاحب، مسٹر ظہیر الدین (علیگ) ، مسٹر وجیہ اللہ صاحب اور مسٹر مسیح الدین صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

ان حضرات نے مسٹر جناح کے سامنے مدعا پیش کیا، دوسری طرف آزادی برما کے قائد موجودہ آنگ سانگ سوچی کے والد نے

 قائد اعظم کے پاس وفد بھیج کر یقین دلایا کہ ان مسلمانوں کے برما کے ساتھ رہنے میں ہی فائدہ ہے، ان کو ہر قسم کے تحفظ کے ساتھ سارے حقوق بھی ملیں گے۔ قائد اعظم نے معذرت کرلی اور اپنی مجبوریاں ظاہر کیں، اس طرح اراکان کی ریاست عملاً پاکستان کے ساتھ ملحق ہونے سے رہ گئی۔ لیکن وہاں کے ایک ایک فرد کا دل پاکستان کے ساتھ دھرکتا رہا۔ جب تک پاکستان کی علمداری رہی وہاں کے مسلمانوں کو سہارا ملتا رہا اور اراکانی مسلمانوں نے بھی اپنی محبتوں اور تعلق کا ثبوت ہمیشہ دیا حقیقت یہ ہے کہ اراکان کے مسلمانوں کے اوپر آج تک جو کچھ مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہ پاکستان سے محبت اور تعلق کی قیمت ہی تو ہے۔

 

1948 ءمیں آزادی کے بعد مسلمانوں نے اس ملک کی ترقی میں کردار ادا کرنا شروع کیا لیکن دو ہی سال بعد 1950ء میں اراکانی مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا نئے سرے سے آغاز ہوگیا ہزاروں مسلمان شہید ہوئے اور ہزاروں لاپتہ ہوگئے۔ اس موقع پر بہت سے اراکانی مسلمان ہجرت کرکے پاکستان میں پناہ لے چکے تھے۔

اس دوران مسلمانان اراکان نے اپنے دفاع کی بھی کوشش کی، اس سلسلے میں انھوں نے برمی حکومت اور ملٹری کے خلاف ہتھیار اٹھائے، پہلے پہل تو برمی حکومت نے بزور طاقت اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کی وجہ سے دوسری پالیسی اختیار کرتے ہوئے انہیں ہتھار ڈالنے پر آمادہ کرلیا ، اس موقع پر برمی حکومت اور فوجی ذمہ داروں نے کھلے الفاظ میں اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کے برمی باشندے ہونے، ان کو تمام تر حقوق دینے اور ان کے ساتھ کسی قسم کے امتیازی سلوک نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی، اس موقع پر برمی ملٹری کے ذمہ داران کی تقاریر و خطاب پر مشتمل ایک دستاویز بھی تیار کی گئی جس کا نام ’’مے یو کامستقبل‘‘ ہے۔

یہ دستاویزات دراصل دو تقریریں ہیں جو کرنل آؤں جی اور سومینٹ نے جولائی1961ء کو اراکان کے سرحدی شہر ’’منگڈو‘‘ میں ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کے اجتماع میں کی تھیں۔

اس کتابچہ میں شامل دونوں تقریریں برمی زبان میں تھیں، چنانچہ برمی زبان میں ان کو شائع کروا کے بڑے پیمانے پر تقسیم کیا گیا، چوں کہ اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کی علمی زبان اردو چلی آرہی تھی اس لئے اس وقت کی برمی حکومت نے مسلمانوں کو رام کرنے کے لئے اس کا اردو ترجمہ کروا کر بڑی تعداد میں تقسیم کیا۔

اس دستاویز میں دونوں کرنلوں نے کھلے الفاظ میں نہایت صراحت کے ساتھ اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کے برمی شہری ہونے کا اعتراف کیا، ناانصافیوں کے ازالے کے وعدے کئے اور ہر قسم کے حقوق اور تحفظ دینے کی یقین دہانی کرائی ۔

                                                                                                                 

    لیکن ابھی اس کی سیاہی خشک ہونے نہیں پائی تھی کہ    1962ء میں جنرل ’’نیون‘‘کا فوجی انقلاب برپا ہوگیا۔ اور پھر مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا جانے لگا، مسلمان بھی اپنے دفاع میں کچھ حرکت کرتے رہے اور پاکستان کی پناپھر 1971 ءمیں مشرقی پاکستان کا یہ بازو کٹ گیا تو ایک دفعہ پھر یہ مسلمان بے آسرا ہوگئے، چنانچہ 1978ء میں برما کی حکومت نے اپنے ان باشندوں کے خلاف خونیں آپریشن کیا، ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور پانچ لاکھ بے گھر ہو کر بنگلہ دیش میں پناہ گزین بن گئے۔برمی حکومت نے اب بھوٹان، نیپال، بھارت اور بنگلہ دیش سے مگھ اور بدھسٹوں کو اس علاقے میں آباد کرنا شروع کردیا۔پھر1982 ءمیں ان مسلمانوں کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی کہ بیک جنبش قلم پوری روہنگیا قوم کی شہریت منسوخ کردی اور ان کو غیر ملکی قرار دیا۔

1991 ءمیں ایک دفعہ پھر ان مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، ہزاروں مسلمان شہید اور ساڑھے تین لاکھ جلاوطن ہونے پر مجبور ہوئے۔

یہ پناہ گزین بے آسرا اور خانماں برباد لوگ کس طرح جانوروں کے ڈربے میں رہ رہے ہیں اور سالہا سال سے ذلت آمیز حیوانات کی سی زندگی گزار رہے ہیں، یہ منظر کوئی مضبوط دل گردے والا ہی دیکھ سکتا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ہر پانچ دس سال میں اس قسم کے آپریشن ہوتے رہتے ہیں، برمی حکومت کی پالیسی یہ رہی ہے کہ باہر سے کسی بھی فرد کو خواہ وہ کتنی ہی وی آئی پی شخصیت ہی کیوں نہ ہو۔ اراکان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی، اس طرح اندرونی مظالم کی خبریں باہر نہیں آسکتیں، حتیٰ کہ اراکان کے علاوہ دیگر صوبوں میں بسنے والے مسلمانوں سے بھی اراکان کی خبریں بلیک آؤٹ رہتی ہیں، برمی حکومت اپنے ملک کے باشنوں تک کو باخبر ہونے نہیں دیتی۔

اسی طرح ان بے سہارا مسلمانون کو پوری دنیا میں طاق نسیاں میں ڈال دیا ، یہاں کے مسلمانوں کے چیخنے چلانے اور رونے دھونے کی آواز بھی مہذب دنیا میں نہیں پہنچتی اور اگر کسی طرح پہنچ بھی جائے تو ان کے حق میں کہیں سے کوئی توانا آواز نہیں اٹھتی۔

                                                                                                           فااللہ المستعان

جون2012  ءکا المیہ

جون2012 میں چند مسلمانوں کے دردناک قتل سے شروع ہونے والا فساد اس حد تک پہنچ گیا کہ سارے اراکانی مسلمان پوری دنیا میں تتر بتر ہو کر رہ گئے ہیں اور عالم انسانیت سسک اٹھی، ان کے ساتھ ہر قسم کا ظلم روا رکھا گیا ، ذیل میں ظلم و ستم کی ایک مختصر فہرست دی جارہی ہے:

1 ۔ 1982 ءسے صدیوں سے آباد جدی پشتی باشندوں کو ان کی شہریت منسوخ کرکے غیر قانونی تارکین وطن قرار دیدیا۔

آج کی مہذب دنیا میں اتنی بڑی قوم کی اور بھی اتنی بڑی تعداد میں اپنے ہی وطن میں ’’بے وطن‘‘ (Stateless)ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 

 

۲۔ ان کے گھر بار کو جلایا گیا، بعض علاقے مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے۔

۳۔ ان کے کھیت کھلیان کو جلا کر خاکستر کردیا گیا۔

۴۔ ان کی دکانیں ساز وسامان سمیت آگ میں جلا دی گئیں۔

۵۔ ان کے مدارس اور تعلیمی دارے بند کردئیے گئے، اس طرح ان کیلئے تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند ہوگئے۔

۶۔ ان پر مسجدوں میں باجماعت نمازیں پڑھنے کی پابندی لگا دی گئی اور مساجد پر تالے ڈال دئیے گئے۔

۷۔ مسلمانوں پر حج کرنے کیلئے اور اس کے لئے سفر کی پابند عائد کردی گئی۔

۸۔ قربانی پر پابند عائد کردی گئی۔

۹۔ مسلمانوں کی جائیدادیں ان سے چھین کر مگھ اور برمی بدھسٹوں کو دی جارہی ہیں۔

۱۰۔ مسلمانوں کی بستیوں کو تاراج کرکے ان کو کیمپوں میں پہنچایا جارہا ہے اور ان کی بستیوں میں غیر مسلموں کو بسایا جارہا ہے۔

۱۱۔ اراکان میں صنعتوں ، ملز اور فیکٹریوں کا کوئی تصور نہیں، وہاں غالب ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور معمولی دکانداری ہے لیکن چونکہ مسلمانوں سے ان کی زمینیں اور جائیدادیں چھین لی گئی، اس لئے کھیتی باڑی سے محروم ہوگئے اور پھر ان پر ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک جانے آنے کی پابندیاں ہیں، اسلئے دکانوں کے معمولی سامانوں کے حصول کے لئے بھی وہ مگھ بدھسٹوں کے محتاج ہیں، اس لئے عملاً ان کا ذریعہ معاش بھی ختم ہوکر رہ گیا ہے۔

۱۲۔ مسلمانوں پر اپنے مکانات اور رہائش گاہوں کی مرمت و اصلاح کی پابندی ہے۔

۱۳۔ مسلمانوں پر شادی بیاہ کے سلسلے میں شرمناک قد غنیں ہیں۔

۱۴۔ مسلمانوں پر دو سے زیادہ بچوں کی پیدائش پر پابندی عائد ہے۔

۱۵۔ کوئی مسلمان اپنے علاقہ سے دوسرے علاقے کی طرف بغیر پرمٹ کے نہیں جاسکتا اور نہ ہی وہاں رات گذار سکتا ہے حتیٰ کہ ایک بیٹی اپنے میکے آکر رات نہیں گزار سکتی۔

۱۶۔ علماء کے ایسے دشمن ہیں کہ وہ کرتا پہن کر ادھر سے ادھر نہیں جاسکتے، چنانچہ ایسے موقع پر وہ صرف بنیان اور لنگی پہن کر چلت پھرت کی کوشش کرتے ہیں۔

۱۷۔ مسلمانوں کے قبرستانوں کو ان کے آباؤ اجداد کے آثار مٹاڈالنے کی غرض سے تھانوں اور کچہریوں میں تبدیل کررہے ہیں۔

 

۱۸۔ مسلمانوں کے تاریخی آثار مٹانے کی غرض سے اراکان کا نام ’’رکھائن‘‘ اور اکیاب کا نام ’’سیٹوے‘‘ سے تبدیل کیا گیا۔ 

اب تک مسلمانوں کو ووٹ دینے کا حق بھی دیا جاتا رہا ہے اور بطور امیدوار پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا حق ملتا رہا لیکن حالیہ انتخابات 2015 ءجس میں آنگ سان سوچی کی پارٹی کامیاب ہو کر حکومت بنا چکی، اس میں مسلمانوں پر نہ صرف بطور امیدوار کھڑا ہونے کی پابندی لگا دی، بلکہ کسی بھی مسلمان کو ووٹ کاسٹ کرنے کا حق بھی نہیں دیا گیا۔

۱۹۔ بے گھر اور خانماں برباد لوگوں نے اپنی جانیں بچا کر کشتیوں میں سوار ہو کر بنگلہ دیش میں پناہ لینے کی کوشش کی تو وہاں کی حکومت نے انہیں پناہ دینے کے بجائے دوبارہ سمندر میں دھکیل دیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد مچھلیوں کی خوراک بن گئے۔

۲۰۔ ذرائع ابلاغ کی پہنچ اور ان کی دہائی کے بعد معمولی عالمی دباؤ آیاتو عمومی فساد تو رک گیا، لیکن بے گھر اور بے سہارا افراد کے لئے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ، ان کو ایسے کیمپوں میں بسا دیا گیا جن میں کسی قسم کی بنیادی سہولت نہیں، برما کے سابق صدر جنرل تھیں، سین نے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے بیان دیا کہ یہ روہنگیا برما کے باشندے نہیں ہیں، ان کو ہم کیمپوں ہی میں رکھیں گے، اگر کسی کے دل میں درد ہو تو وہ ان کو اپنے ہاں لے جا کر آباد کرائے۔

۲۱۔ جن لوگوں کے مکانات ابھی باقی ہیں وہ برائے نام اپنے گھروں میں تو ہیں، لیکن ان کے سروں پر چوبیس گھنٹے ننگی تلوار لٹکتی رہتی ہے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا اور کوئی رات ایسی نہیں گزرتی ہو کہ ان میں کسی ایک یا چند گھروں پر قیامت نہ بیتتی ہو، برمیز فوج کے اہلکار گھروں میں دھاوا بول دیتے ہیں اور پھر چادر اور چار دیواری کے تقدس پامال کرتے ہوئے مردوں کو گرفتار کرلیتے ہیں، عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں، بچوں اور بوڑھوں کو نہیں بخشتے۔

کبھی اسلحہ کی تلاشی کے بہانے پورے گھر کو کھود ڈالتے ہیں اور کبھی موبائل رکھنے کے ناکردہ جرم پر لاکھوں کیات (برمی کرنسی) کا جرمانہ عائد کرتے ہیں اور قید و بند کی صعوبتوں میں ڈال دیتے ہیں۔

آئے دن لوگوں کو فوجی کیمپوں میں پکڑ کر لے جاتے ہیں اور وہاں ان سے بیگار لیتے ہیں پھر ان کو معاوضہ تو درکنار، بھوکا پیاسا چھوڑ دیتے ہیں۔

۲۲۔ظلم و ستم کے یہ شکار مشقتوں اور خوف و ہراس کے اس ماحول سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے لئے سوائے سمند کے راستے کے اور کوئی راستہ نہیں رکھا گیا، چنانچہ سمندر کی طرف جانے اور کشتیوں  کے ذریعہ نقل مکانی کرنے کیلئے بھی انہیں پولیس اہلکاروں سے لے کر ایجنٹوں ، دلالوں اور اسمگلروں تک کو رشوت دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔

پھر جن ’’خوش نصیبوں‘‘ کو اس طرح کشتی میں جگہ مل جاتی ہے، ان کی کیفیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس طرح لکڑیوں اور تختوں کی تھپی لگائی جاتی ہے اس طرح ان ’’انسانوں ‘‘ کی جن میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جوان بھی ، عورتیں بھی ہوتی ہیں اور بچے بھی، ان کی بھی تھپی لگائی جاتی ہے۔ چنانچہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کے ساتھ ان کو بیچ سمندر میں لے جا کر بڑے جہاز میں سوار کرایا جاتا ہے، یہاں سے گویا اب یہ انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، چنانچہ ان کو ٹھونس کر تھائی لینڈ کے غیر آباد جزائر کی طرف لے جایا جاتا ہے اور وہاں کے جنگلات اور غاروں میں ان اسمگلروں کے مراکز بنے ہوئے ہیں، وہاں لے جا کر ان کو ماراکوٹا جاتا ہے، ان کے عزیز و اقارب جو مختلف ملکوں میں بسے ہوئے ہوتے ہیں ان کے فون نمبرز پہ کال کرکے ان کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنائی جاتی ہیں اور ان کے ذریعے ان سے بھاری رقوم کا مطالبہ ہوتا ہے۔ اس طرح بعض خوش نصیب رہائی پا جاتے اور اکثر ان کے غلام باندی کی حیثیت سے رہ جاتے ہیں، ان کو زنجیروں میں باندھ کر رکھا جاتا ہے اور ان کی عورتوں کی عصمت دری کی جاتی ہے جس کی ویڈیو بنا کر پوری دنیا میں مسلمانوں کی غیرتوں کو للکاراجاتا ہے۔

بہت سے لوگ ان کی قید میں مر جاتے ہیں بلکہ مار دئیے جاتے ہیں جن کی اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوچکی ہیں۔

۲۳۔ بہت سے خوش نصیب وہ بھی ہیں جو کسی طرح تھائی لینڈ کی سرزمین پر پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اسی طرح بعض ملائیشیا اور بعض انڈو نیشیا تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں، لیکن ان کے لئے وہاں ایک نئے عذاب کا سلسلہ منتظر ہوتا ہے کیونکہ ان کو وہاں پناہ گزین کی حیثیت کے بجائے غیر قانونی تارکین وطن کی حیثیت سے جیلوں میں رکھا جاتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن میں ہر ایک پہلے ہی سے مصیبتوں کا مارا ہوا ہوتا ہے، ان کی فیملی کے کسی نہ کسی فرد کو یا کئی کئی افراد کو بدھسٹوں نے مار دیا ہوتا ہے، اور وہ خود سمندروں کی بے رحم موجوں سے لڑتے ہوئے کسی طرح اپنی جانیں بچا کر وہاں پہنچتے ہیں تو وہاں ان کے لئے جیل اور قید و بند کی صعوبتیں منتظر ہوتی ہیں، ان کی اشک شوئی کے لئے کوئی نہیں ہوتا۔

۲۴۔ حال ہی میں عالمی ذرائع ابلاغ نے یہ انکشاف کیا کہ ہزاروں کی تعداد میں (جن کی تعداد تقریباً 27ہزار بتائی جاتی ہے ) روہنگیا مسلمان مختلف چھوٹی بڑی کشتیوں میں سمندر کے بیچوں بیچ سرگرداں ہیں کہ ان کو کوئی ملک قبول کرنے کو تیار نہیں، ان میں بوڑھے بھی ہیں ، جوان بھی ، عورتیں بھی ہیں اور بچے بھی، سوشل میڈیا کے توسط سے ان کی گریہ وزاری آہ و بکا لوگوں کی سماعتوں سے ٹکرائی جو عرش الٰہی کو تھرا دینے کیلئے کافی تھی۔

اس حال میں بھی سنگدل ایجنٹوں نے کتنے ہی جوانوں اور بوڑھوں کو سمندر برد کیا، کتنی ہی عورتوں کی عصمتوں کو پامال کیا!

 فاللہ المستعان

یہ وہ تمام حالات تھے، جو جون 2012 ءسے اکتوبر2016ءتک پیش آئے۔

 اکتوبر2016 ءکا المیہ:

لیکن9اکتوبر 2016ء سے ظلم وستم کی ایک عجیب لہر اٹھی اور اس ظلم و ستم نے سابقہ سارے ریکارڈ توڑ ڈالے، بنگلہ دیش کی سرحدپہلے سے بند تھی اور اب یہ نہتے مسلمان بوڑھے جوان، مرد، عورتیں اور معصوم بلکہ نومولود بچے برمی ملٹری اور پولیس کے شکار ہیں، ان کمزوروں کا شکار ان ظالموں کا مرغوب ترین مشغلہ ہے، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

برمی بدھسٹ فوج، پولیس اور مگھ دہشت گردوں اور ویراٹھو نامی فرعون نما بدھ بھکشو اور اس کے ہمنواؤں کے آئے روز ظلم و ستم سے تنگ آکر چند غیرت مند لوگوں نے لوگوں نے ایک پولیس چوکی پر حملہ کردیا، جس کے نتیجہ میں وقتی طور پر یہ بھاگ گئے ، تاہم اس کے بعد ظلم و ستم نے ایک نئی تاریخ رقم کردی:

* مسلمانوں کے علاقوں کا محاصرہ کیا گیا۔

* گھر گھر کی شدید تلاشی لی گئی۔

* حکم دیاگیا کہ گھروں کے ارد گرد جو چٹائیوں کی دیواریں ہیں، وہ سب گرادیں۔

* تلاشی کے دوران اگر گھر میں مرد ملتے تو انہیں گرفتار کرکے لے جاتے اور پھر مار ڈالتے ہیں، اس لئے عموماً گھر کے مرد حضرات گرفتاری کے ڈر سے پہاڑوں اور جنگلوں کا راستہ لیتے ہیں اور عورتیں رہ جاتی ہیں، یہ برمی ملٹری ان خواتین کی عصمت دری کرنے، بلکہ ان کو جان سے مار ڈالنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں، حدیہ کہ چھوٹی چھوٹی نابالغ بچیوں کے ساتھ درندگی کا مظاہرہ کیا گیا۔

* پورے پورے علاقے کو آگ لگا کر خاکستر کردیا ، ان جلائے جانے والے علاقوں میں ناکھورہ، دودائنگ، وابک، بڑا گوزوبیل، چھوٹا گوزہ بیل، باگ گونہ، دونسے، کیاری پرانک شامل ہیں۔

* دکانیں جلا دی گئیں، توڑ پھوڑ کرکے سب کچھ برباد کردیا۔

* کھیتی باڑی کے لئے نکلنا تو درکنار، فصل کاٹنے کے لئے جانا ناممکن بنادیا۔

* گھر میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہونے کے باعث قریبی دریا یا تالاب میں مچھلی کے شکار کے لئے جانے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔

* گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کرکے پوری پوری بستیوں کو ہلاک کیا گیا۔

* آگ جلانے کی وجہ سے جان بچا کر نکلنے والی خواتین اور ان کے بچوں کو آگ میں پھینکا گیا۔

* بعض خواتین کی گود سے چھوٹے بچوں کو چھین کر آگ میں ڈال کر بھسم کردیا۔

* عالم دین کو دیکھتے ہی ان کی داڑھی منڈوا دیتے اور پھر ذبح کردیتے ہیں

* عالم دین کو دیکھتے ہی ان کی داڑھی منڈوا دیتے اور پھر ذبح کردیتے ہیں۔

نومبر2016 ءکے اوائل میں ’’یو این او‘‘ کے اعلیٰ سطحی وفد نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ برمی حکومت نے اول تو مسلمانوں کے وفد سے ملاقات سے روکنے کی کوشش کی، بلکہ کچھ مگھ بدھسٹوں کو مسلمان ظاہر کرکے ملوادیا اور ان سے کسی قسم کے ظلم نہ ہونے کا بیان دلوادیا۔ تاہم مسلمانوں نے اس سازش کو جان پر کھیل کر ختم کیا اور بڑی تگ و دو کے بعد وفد سے ملاقات کی اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ 

لیکن وائے افسوس! وفد کے جاتے ہی ظلم و ستم میں اور اضافہ ہوگیا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک ستر ہزار افراد بے گھر ہوگئے اور سینکڑوں شہید اور زخمی ہوئے، ایک سو دس سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا۔

اگست2017ء کا المیہ:

25اگست2017 ءسے یومیہ 1000مسلمان شہید ہوئے اور یکم ستمبر جمعہ کو5000مسلمان شہید ہوئے۔

بوسیدنگ(buthidaung)، راسیدنگ(Rathedaung)، منگڈو(Mungdaw)کے علاقوں میں سینکڑوں بستیاں جلائی گئیں، گھروں کے ساتھ ساتھ کافی سارے مکینوں کو جلاڈالا۔ جان بچانے کے لئے نکلنے والے معصوم بچوں ، بچیوں، بوڑھوں اور علمائے کرام کو بیدردی سے شہید کیا گیا، ڈنڈے مار مار کر مار ڈالنا، گھروں کو جلاکر خاکستر کردینا، بلڈوزر چلا کر نام ونشان کو مٹا ڈالنے کی کوشش کرنا معمولی بات ہے۔

ایک سو بچاس سالہ معمر عالم دین محدث فقیہ مولانا احمد حسین صاحب کو بیدردی کے ساتھ قتل کرکے شہید کر ڈالا۔ 

جان بچانے والے بچے بوڑھے جوان دریاؤں کے کنارے جنگلات میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر پناہ لینے کی کوشش کررہے ہیں جہاں خوفناک قسم کے درندوں کے ساتھ ساتھ جونگ، مچھر اور ہر قسم کے حشرات الارض کی بہتات ہے۔ کھانے پینے کا سامان نہ ہونے کی وجہ سے بڑے لوگ درخت کے پتے چبانے پر مجبور ہیں اور بچے بلک بلک کر ماؤں کی گودوں میں جان دے رہے ہیں، دوسری طرف بنگلہ دیش تک پہنچنے تک راستے میں دیگر آفات کے علاوہ بدھ بھکشو کی صورت میں دہشتگروں کی ٹولیاں، برمی حکومت کی پولیس اور فوج کی پوری فورس اپنی پوری توانائی کے ساتھ ان نہتے اور بے سہاروں کو تہہ تیغ کرنے کے درپے ہیں کتنے ہی سمندر اور دریاؤں میں مچھلیوں کی خوراک بن رہے ہیں اور کتنے ہی ظالموں اور سفاکوں کی درندگی کا شکار ہورہے ہیں۔

اولاً ایسی جگہوں سے کسی کے ساتھ رابطہ نہیں ہوتا اور اگر رابطہ ہو جائے تو وہ دردناک منظر سامنے آتا ہے کہ کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ 

 

مطالبات اور اپیل:

ان تمام حالات کوپیش نظر رکھتے ہوئے ہمارا مطالبہ ہے کہ:

۱) میانمار حکومت اور اس کی بھرپور حمایت کے ساتھ وہاں کی فوج، پولیس، عوام ، بدھ بھکشو اور دہشتگرد تنظیمیں  روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے درپے ہیں ، لہذا ان کی نسل کشی بند کی جائے اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے اور فوری طور پر وہاں اپنی امن فوج بھیجے، وہاں کے بچے کھچے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرے اور ان کی فوری آباد کاری کا انتظام کرکے زندگی کی تمام تر بنیادی ضروریات و سہولیات انہیں بہم پہنچائی جائیں۔

۲)عالم اسلام بلکہ پورے عالم کے انسان دوست ممالک سے مطالبہ ہے کہ وہ فوری طور پر برما/میانمار کی حکومت پر سفارتی اور اخلاقی دباؤ ڈالے تاکہ وہ انسانیت کش حرکتوں سے باز آئے۔ روہنگیا مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے والے انسانیت سوز اور ظالمانہ قانون کو ختم کرے اور ان کی شہریت اور حقوق کو بحال کرے۔

۳) رابطہ عالم اسلامی، مؤتمر عالم اسلامی اور او، آئی ،سی نمائشی قراردادوں اور جذباتی بیانات داغنے کے بجائے فوری طور پر مؤثر اور عملی قدم اٹھائیں۔ 

۴) آسیان ممالک کی تنظیم اپنا کردار ادا کرے۔

۵) پڑوس میں واقع بنگلہ دیش ، بھارت اور چائنا اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں، اور برما میں نسل کشی کے گھناؤنے اقدامات کا روک تھام کریں۔

۶) صدر مملکت، وزیر اعظم پاکستان، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور دیگر ارباب اختیار سے بھی اپیل ہے کہ وہ اس سلسلے میں قائدانہ کردار ادا کریں۔

۷) روہنگیا مسلمانوں کے وہ افراد جو ہجرت کرکے تھائی لینڈ، سری لنکا، بھارت، ملائیشیا اور انڈونیشیا پہنچ چکے ہیں ، ان کو جیلوں اور حراستی مراکز میں ٹھونس کر رکھنے کے بجائے انہیں آزاد فضاء میں سانس لینے کا موقع دیا جائے اور ان کو ان متعلقہ ممالک میں ’’ریفیوجی‘‘ کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے اور ان کو انٹرنیشنل لاء کے مطابق ریفیوجیز کے جتنے حقوق ہیں وہ ان کو فراہم کئے جائیں، خاص طور پر بنیادی ترین حقوق تعلیم اور صحت اور آزادانہ نقل و حرکت کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائیں۔

۸) بنگلہ دیش میں موجود رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ تمام ریفیوجیز کے ساتھ کیمپوں میں جو غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہا ہے ، اس سلسلہ کو بند کیا جائے اور انہیں عزت کے ساتھ رہنے بسنے کی آزادی دی جائے، انہیں تعلیم کے مواقع  فراہم کئے جائیں اور ان کو صحت اور علاج ومعالجہ کی بھرپور سہولتیں دی جائیں اور عالمی تنظیموںکو ان تک براہ راست رسائی دی جائے۔

۹) رنگون اور اکیاب میں او آئی سی یا معتمر عالم اسلامی کا باقاعدہ دفتر کھولا جائے تاکہ عالم اسلام کے ذمہ داران روہنگیا مسلمانوں کے حالات سے کماحقہ واقف رہ سکیں۔ 

۱۰) جن ایجنٹوں دلالوں اور انسانی اسمگلروں نے انسانیت سوز اور شرمناک حرکتیں شروع کر رکھی ہیں ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

۱۱) برمی حکومت کے تعاون نہ کرنے کی صورت میں اس کا اکنامک بائیکاٹ کیا جائے اور اسے نشان عبرت بنایا جائے۔

۱۲) برما کی جمہوریت کی چمپئن نوبل انعام یافتہ سیاستدان’’آنگ سانگ سوچی‘‘ سے اب تک امید باندھی گئی تھی کہ یہ جمہوریت پر یقین رکھنے والی اور جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والی انصاف پسند لیڈر ہیں، اس لئے ان کی پارٹی ’’این ایل ڈی‘‘ برسر اقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کی ضرور اشک شوئی کرے گی اور مسلمانوں کی محرومیوں کا ازالہ کرے گی، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! چنانچہ آنگ سان سوچی نے برسر اقتدار آنے کے بعد اب تک روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کا سلسلہ میں کردار تو کیا! الٹا زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا، معمولی اقتدار کی ہوس کی خاطرروہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے اپنی آنکھیں بند رکھی ہیں، ان سے امن نوبل انعام واپس لے لیا جائے ان کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔

۱۳) ان تمام فتنوں اور فساد کا اہم جڑ وہاں کے متعصب بدھ بھکشو ہیں، خاص طور پر 969کا سربراہ ویراہ ٹھو کا کا کردار انتہائی گھناؤنا اور عالمی برادری کے لئے نہایت قابل نفرین رہا ہے، اس تنظیم کو دہشتگرد قرار دے کر اس کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے اور جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔

۱۴) پاکستان، سعودی عرب، ترکی، ملائیشیا اور انڈونیشیا کی اعلی ترین سطح پر کمیٹی تشکیل دی جائے جو روہنگیا مسلمانوں کی اراکان کے اندر آباد کاری اور ان کے تحفظ کا انتظام کرے اور جتنے روہنگیا مسلمان مختلف ممالک میں دربدر ہوچکے ہیں ان کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کا اہتمام کرے۔

۱۵) پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے ایجنڈے کو اپنے بنیادی پروگراموں میں مقدم رکھیں اور ترجیحی بنیادوں پر اس معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

 

۱۶) پاکستان کی تمام موثر شخصیات سے خواہ وہ سیاسی ہوں یا مذہبی ہوں، انسانیت کی بنیادپر اپیل ہے کہ روہنگیا کے مسلمانوں کے دکھ اور مصائب کے ازالہ کے سلسلے میں اپنا کردار ضرور ادا کریں۔

۱۷) تمام سیاسی جماعتیں، نیز بااثر شخصیات اور مقتدر علماء کرام ایک ایسی مشترکہ کمیٹی تشکیل دیں جو روہنگیا مسلمانوں کے اراکان کے اندر تحفظ اور دیگر حقوق شہریت کی بہم رسانی کو یقینی بنائے نیز اراکان سے نکل کر پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجبور لوگوں کو ’’ریفیوجی‘‘ کے حقوق دلائے۔ 

۱۸) صحافی برادری خواہ ان کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکٹرانک میڈیا سے ، اسی طرح سوشل میڈیا سے متعلق ہر ہر فرد سے گذارش ہے کہ خدارا موجودہ دور کے اس عطیم انسانی المیے کو نظر انداز نہ ہونے دیں تاوقتیکہ ان مظلومین کو ان کا حق نہ مل جائے۔

۱۹) انسانی حقوق کی علمبردار شخصیات اور تنظیموں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ آج تک کتے بلی تک کے حقوق کے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے سے دریغ نہیں کیا جاتا، خدارا! اس صدی کی اس عظیم انسانی ٹریجڈی کو سنجیدگی کے ساتھ اس طرح ٹریٹ کیجئے کہ ان بے سہارا اور بے خانماں انسانوں کو عزت کی زندگی گزارنے کا موقع مل سکے اور انسانیت کی آتما کو آسودگی حاصل ہو۔

۲۰) تمام اہل خیر حضرات سے اپیل ہے کہ روہنگیا مسلمان جو اراکان میں پھنسے ہوئے ہیں اسی طرح مختلف ملکوں میں پناہ لے چکے ہیں ان کی خوراک، صحت اور تعلیم کا موثر انتظام کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں