اسکول کی طرف سے اسی اسکول کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کی ممانعت کے باوجود ٹیوشن پڑھانے پر لی گئی فیس کا حکم۔

سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

اگر کوئی اسکول میں ٹیچر ہے اور وہ اسی اسکول کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہے، جبکہ اسکول کی طرف سے ممانعت ہو تو ٹیوشن کی فیس حرام ہوگی؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

واضح رہے کہ جب کوئی آدمی کسی ادارے میں ملازمت اختیار کرتا ہے تو اسے فقہ کی اصطلاح میں “اجیر خاص” کہتے ہیں، اجیر خاص پر ملازمت کے طے شدہ اوقات میں ادارے کے ان قوانین کی پاسداری لازم ہے جو قوانین قرآن وسنت کے مخالف نہ ہوں۔

مذکورہ صورت میں ٹیچر پر اسکول کے طے شدہ وقت میں قوانین کی پاسداری ضروری ہے۔اسکول کے طے شدہ وقت کے علاوہ اسکول کی طرف سے ٹیوشن پڑھانے پر پابندی لگانا یہ شرط شرعاً معتبر نہیں، لہذا اگر ٹیچر اسکول کے اوقات کے علاوہ اسکول کے بچوں کو دیانت داری کے ساتھ ٹیوشن پڑھاتا ہے، اسکول کے پرچے طلبہ کو نہیں بتاتا تو اس کی فیس حلال ہے۔ تاہم اگر ٹیچر شکوک وشبہات سے بچنے کے لیے ٹیوشن نہ پڑھائے تو ایسا کرسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

1. قال الله تعالى:

“واَوۡفُوۡا بِالۡعَهۡدِ‌ اِنَّ الۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡــئُوۡلًا”

(سورة الإسراء: 34)

ترجمہ:

“اور عہد پورا کرو، بیشک عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا”۔

2. قال النبي صلى الله عليه وسلم:

“المسلمون على شروطهم”.

(رواه الترمذي: 1352)

ترجمہ:

“مسلمان اپنی طے کردہ شرائط پر قائم رہیں گے”۔

3. قال العلامۃ العینی رحمہ اللہ تعالی فی شرحه:

” قوله: السمع أي إجابة قول الأمير، إذ طاعة أوامرهم واجبة ما لم يأمر بمعصية، وإلا فلا طاعة لمخلوق في معصية الخالق. ويأتي من حديث علي رضی اللہ عنہ بلفظ:” لا طاعة في معصية، وإنما الطاعة في المعروف …وذكر عياض: أجمع العلماء على وجوب طاعة الإمام في غير معصية، وتحريمها في المعصية”.

(عمدۃ القاری: 21/474)

4. “لو استؤجر أحد ھؤلاء علی أن یعمل للمستأجر إلی وقت معین یکون أجیراً خاصاً في مدة ذلك الوقت”.

(مجلة الأحکام العدلیة مع شرحھا: درر الحکام لعلي حیدر،1: 454، رقم المادة: 422، ط: دار عالم الکتب للطباعة والنشر والتوزیع، الریاض)

5. “الأجیر الخاص یستحق الأجرۃ إذا کان فی مدۃ الإجارۃ حاضراً للعمل ۔۔۔۔ غیر أنه یشترط أن یتمکن من العمل، فلو سلم نفسه ولم یتمکن فیه لعذر کالمطر والمرض، فلا أجر له، ولکن لیس له أن یمتنع عن العمل وإذا امتنع لا یستحق الأجرۃ”.

(شرح المجلة: 239/1)

6. “والثاني وهو الأجیر الخاص ویسمی أجیر وحد، وهو من یعمل لواحدٍ عملاً موقتاً بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسه في المدۃ وإن لم یعمل کمن استؤجر شہراً للخدمة أو شهراً لرعي الغنم المسمی بأجر مسمی ۔۔۔۔ ولیس للخاص أن یعمل لغیرہ، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل ۔۔۔۔۔ وإن لم یعمل أي إذا تمکن من العمل فلو سلم نفسه ولم یتمکن منه لعذر کمطر ونحوہ لا أجر له”.

(رد المحتار: 9/82 ، کتاب الإجارۃ ، وکذا فی البحر الرائق : 8 /52 ، کتاب الإجارۃ)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

20 صفر 1443ھ

27 ستمبر 2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں