شب قدر کے مختلف راتوں میں ہونے کا حکم

سوال:یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ لیلةالقدر صرف طاق راتوں میں ہو سکتی ہے۔ یہ آخری عشرہ کی کسی بھی رات میں ہو سکتى ہے۔
اور ہاں میں نےایک بار پھر پوسٹ کرنے سے پہلے ڈاکٹر فرحت ہاشمی سے تصدیق کی تھی۔ کہ طاق راتوں کی فضیلت زیادہ ہے لیکن لیلةالقدر کسی بھی رات میں ہو سکتی ہے۔
یہ سعودی عرب میں 24 ویں اور پاکستان میں 23 ویں ہو سکتی ہے.
رات ایک ہی ہے ہماری آج اور سعودیہ کی کل نہیں آئے گی۔ سب کی ایک ساتھ آئے گی۔تو یہاں طاق ہو سکتی ہے اور وہاں جفت مطلب ایک دوسرے کے برعکس ہو سکتی ہے۔ اس لیے کوئی بھی رات نہ چھوڑیں اس لیے کہ آج عبادت کی رات نہیں ہے۔ رمضان کی آخر کی ساری راتیں عبادت کی راتیں ہیں۔
اس کے بارے میں راہنمائی کر دیں
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ شب قدر ایک مرتبہ ہوتی ہے اور ایک ہی ہوتی ہے ، البتہ اختلاف مطالع کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک ہی وقت میں نہیں ہوتی ؛ بلکہ ہر جگہ وہاں کی تاریخ اور وقت کے اعتبار سے شب قدر ہوتی ہے، اور جس جگہ جس وقت شب قدر ہوتی ہے وہاں اللہ تعالی کی طرف سے شب قدر کی برکات ورحمتیں متوجہ ہوتی ہیں۔یہ انسانی عقل کے لیے تو مشکل ہے،لیکن اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔
باقی رہی ڈاکٹر فرحت ہاشمی کی بات تو چونکہ ان کے دیگر بہت سے نظریات جمہور اہل حق سے ہٹ کر ہیں،نیز وہ مستند مدارس سے بھی پڑھی ہوئی نہیں ؛لہذا ان کی بات کا اعتبار نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:

1: ”جس زمانہ و وقت کے ساتھ جوحکم یا فضیلت متعلق ہے ہر جگہ جب وہ وقت اور زمانہ آوے گا ، اسی وقت حکم یا فضیلت بھی واقع ہو گی ، پس جس طرح نمازوں کا حکم ہر جگہ طلوع وغروب کے ساتھ ہے، اسی طرح یہاں کے حساب سے جو لیلة القدر ہو گی اس وقت وہ برکاتِ خاصہ یہاں نازل ہوں گی، اور جس وقت دوسری جگہ کے حساب سے وہاں لیلة القدر ہو گی، ویسے ہی برکات ورحمت وہاں اس وقت متوجہ ہوں گی، وھذا ظاہر جداً، فقط “ (امدادالفتاوی129/6 مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)

2:”اختلاف مطالع کے سبب مختلف ملکوں اور شہروں میں شب قدر مختلف دنوں میں ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں؛ کیوں کہ ہر جگہ کے اعتبار سے جو رات شب قدر قرار پائے گی اس جگہ اسی رات میں شب قدر کے برکات حاصل ہوں گے، “ (معارف القرآن 796/8مطبوعہ: ربانی بک ڈپو، دہلی)

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
تاریخ:17مئی2023
26شوال1444

اپنا تبصرہ بھیجیں