سوال: شریعت اسلامیہ میں دوپٹہ کا کیا حکم ہے ؟
محارم مردوں کے سامنے کیا حکم ہے ؟
گھر کی عورتوں کے سامنے اور کسی مجلس میں عام خواتین کے سامنے کیا حکم ہے ؟
نیز کیا دوپٹہ کو گلے میں ڈال کر سینہ پر ڈال لینا کافی ہے یا سر ڈھانپنا بھی ضروری ہے ؟
اس سلسلے میں عام خواتین اور عالمات کے حکم میں کچھ فرق ہوگا یا نہیں ؟
ایک عالمہ کا کہنا ہے کہ دوپٹہ اوڑھنا عورتوں کے سامنے صرف مباح ہے ( واضح رہے کہ اس سے مراد صرف سر ڈھانپنا ہے) اگر اوڑھنے میں اسلام کا شعار ہونے، باحیا خواتین کا عمل اور صحابیات کا عمل ہونے کی وجہ سے اتباع کی نیت کی جائے تو تب کہیں جا کے مستحب ہوتا ہے۔ اور کسی کو سر ڈھانپنے کی زیادہ تلقین کرنا تشدد فی الدین کے زمرہ میں آتا ہے ۔ کیا یہ موقف درست ہے ؟
نیز ایک مدرسہ کی دورہ حدیث شریف کی طالبہ کا کہنا ہے کہ صحابیات طاہرات رضی اللہ عنہ ھن بھی ہر وقت دوپٹہ نہیں اوڑھا کرتی تھیں کیا یہ بات درست ہے ؟ اگر یہ باتیں درست ہیں تو اسلامی معاشرے میں اس بارے میں اس قدر سختی کیوں پائی جاتی ہے ؟
جواب: اسلامی سماج کے اکثر شریف ، حیادار اور دین دار گھرانوں کے عرف عام میں محارم اور گھر اور باہر کی عام خواتین کے سامنے ننگے سر آنے کو بہت معیوب سمجھاجاتا ہے ، اسلامی تاریخ کی نامور دین دار اور پاک باز خواتین اور سلف صالحین کے حالات سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے ۔
دوسری فقہائے اسلام کی بعض تصریحات کے مطابق بھروسے کے محارم اور دین دار خواتین کےسامنے عورت کے ننگے سر آنے کی رخصت اور گنجائش ہے ( جو محارم بھروسے کے قابل نہ ہوں ان کے سامنے ننگے سر اور چہرہ پر چادر لیے بغیر آنا درست نہیں، اسی طرح جو خواتین فاسق وفاجر ہوں ان کے سامنے بھی ننگے سر اور بے حجاب آنا مناسب نہیں )
ایک عزیمت کی راہ ہے اور دوسری رخصت کی۔ اور دونوں کی درمیانی راہ یہ ہے کہ تمام مسلم معاشروں میں بہتر اور لائق تقلید راہ یہی ہے کہ محارم اور مسلم خواتین کے سامنے ننگے سر آنے کو معیوب سمجھاجاتا ہو وہاں ان کے عرف ورواج کی بنیاد پر اس کی پابندی لازمی قرار دی جائے گی اور جن معاشروں ا ور خاندانوں میں ایسا دستور اور عرف نہیں وہاں رخصت اور عزیمت دونوں راہوں میں سے کسی بھی ایک کا انتخاب درست قرار دیاجائے گا ، تاہم تمام ہی صورتوں میں کسی ایک فریق کا دوسرے فریق کو اس مسئلہ کی بنیاد پر یدف طعن وملامت بنانا راہ اعتدال سے تجاوز شمار ہوگا ۔
معاشرے میں علم ودین کی ترویج کرنے والوں اور علم ودین کے نام سے شہرت رکھنے والوں کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ بے حیا اور آزاد خیال معاشرہ کو حیا اور عفت کی راہ پر ڈالیں ، یہ نہیں کہ بنے بنائے حیا دار معاشرے میں نت نئے شکوک جنم دیں !!!
امید ہے کہ ان گزارشات سے آپ کے تمام حل طلب نکات کا جواب مل گیا ہوگا۔
فی الھندۃ :” لا ینبغی للمراۃ الصالحۃ ان تنظر الیھا المراۃ الفاجرۃ ۔۔۔فلا تصنع جلبا بھا۔ ولا خمارھا عندھا ۔” ( 5/327 رشیدیہ وحقانیہ )
وفیہ :” لاباس للرجل ان ینظر من امہ ،وانبتہ البالغۃ، واختہ ، وکل ذی رحم محرم منہ ۔۔۔۔ الی شعرھا وصدرھا وذواےبھا وتدیھا وعضدھ ا وساقھا۔ ” (5/328)
وفیہ :” فی غریب الروایۃ : یرخص للمراۃ کشف الراس فی منزلھ ا وحدھا ، فاولی ان یجوز لھا لبس خمار رقیق یصف ماتحتہ عند محارمھا ،کذا فی القنیۃ۔” (5/333)