شوہر کے نامرد ہونے کی صورت میں عدالت سے خلع لینے کا حکم

 سوال: مفتی صاحب  ایک عورت کی شادی ہوئی  کچھ ماہ وہ رہی  لیکن بعد میں معلوم ہواکہ اس کا شوہر نامرد تھا  حقوق زوجیت ادا نہ کر سکتا تھا  ۔مقدمہ  درج کرایا  گیا  کیس لڑکی جیت گئی  وہ لڑکا عدالت کے بلانے پر نہ آیا،عدالت نے بوجہ شوہر کے حق ادا نہ کرنے پر نکاح فسخ کردیا۔اب اس لڑکی کا رشتہ  دوسری جگہ ہورہا ہے  عدالت کے مطابق تین ماہ ہوگئے ہیں ،اب جہاں دوسری شادی ہورہی ہے  انہوں نے لڑکی والوں کو کہا اور محلہ والوں نے بھی مشورہ دیا کہ آپ پہلے لڑکے سے طلاق بھی دلوا دو تو بہتر ہے ،پہلے لڑکے سے یہ طے ہوا کہ وہ ایک لاکھ روپیہ لے گا اور تین طلاق دے گا،پہلے شوہر نے پیسے لے کر کل رات طلاق دے دی ۔ دریافت امر یہ ہے کہ عدت عدالت کے حساب سے ہوگی یا  کل رات جو طلاق دی ہے تب سے شروع ہوگی ؟ اور پہلے شوہر کا رقم لینا جائز ہے ؟

سائل:محمد دلاور

الجواب حامدا ومصلیا

واضح رہے کہ شوہر کے نامرد ہونے کی صورت میں عورت کو عدالت کے ذریعہ  فسخ نکاح  کا  اختیا رہے ، بشرطیکہ عورت کو نکاح سے قبل شوہر کے نامردہونے کا علم نہ ہو اور نکاح کے بعد ایک مرتبہ بھی شوہر نے وطی نہ کی ہو اسی طرح نامرد ہونے کے علم کے بعد عورت نے شوہر کے نکا ح میں رہنے پر ایک مرتبہ بھی زبانی طور پر رضا مندی ظاہر نہ کی ہو،ان تمام شرائط کے پائے جانے کی صورت میں  اگر بیوی   عدالت سے رجوع کرے تو عدالت شوہر کو علاج معالجہ کے لئے ایک سال کی مہلت دے ،اس ایک سال میں تندرست نہ ہوا تو قاضی عورت کو فسخ  کا اختیار دے گا     اگر وہ اسی مجلس میں تفریق کو اختیار کرے تو عدالت خود شوہر کی طرف سے قائم مقام بن کر  نکاح فسخ کردے گی۔

مذکورہ صورت میں نامرد ہونے کی بنیاد پرفسخ نکاح کے مذکورہ بالا شرعی تقاضے ( علاج کے لیے سال بھر کی مہلت وغیرہ) پورے نہیں کیے گئے ا س لئے اس فیصلہ کی بنیاد پر عورت کے لئے دوسری جگہ شادی کرنا جائز نہیں،البتہ شوہر نے ایک لاکھ روپے کے عوض  جو تین طلاقیں دی ہیں اس سے عورت پر طلاق مغلظہ واقع ہو گئی  ،لہذا  عدت عدالت کے فسخ نکاح کے وقت کے بجائے  طلاق کے فورا بعد  شروع ہوچکی ،  اور طلاق کی عدت تین حیض ہیں،لہذا تین حیض  عدت گزارنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

میاں بیوی کی رضامندی سے ایک لاکھ روپے کے عوض طلاق کا معاملہ طے ہوا تھا لہذا شوہر  کا رقم لینا  قضاء جائز ہے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 297)

(وإذا كان الزوج عنينا أجله الحاكم سنة، فإن وصل إليها وإلا فرق بينهما إذا طلبت المرأة ذلك) هكذا روي عن عمر وعلي وابن مسعود، ولأن الحق ثابت لها في الوطء، ويحتمل أن يكون الامتناع لعلة معترضة، ويحتمل لآفة أصلية فلا بد من مدة معرفة ذلك، وقدرناها بالسنة لاشتمالها على الفصول الأربعة. فإذا مضت المدة ولم يصل إليها تبين أن العجز بآفة أصلية ففات الإمساك بالمعروف ووجب عليه التسريح بالإحسان، فإذا امتنع ناب القاضي منابه ففرق بينهما ولا بد من طلبها لأن التفريق حقها”

الفتاوى الهندية (1/ 495)

“إن طلقها على مال فقبلت وقع الطلاق ولزمها المال وكان الطلاق بائنا كذا في الهداية”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 114)

“والخلوۃ بلامانع حسي وطبعي وشرعی ولوکان الزوج مجبوبا أوعنینا أوخصیا في ثبوت النسب وفي تأکد المہر والنفقۃ والسکنی والعدۃ”

البقرۃ،جزء آیت:۲۲۸

“قال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ: وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسهنَّ ثَلاَثة قُرُوْء”

حیلہ ناجزہ ۸۵/۸۷  حضرت تھانوی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

“زوجہ عنین کو اپنے شوہر سے علیحدگی کا اختیار چند شرائط کے ساتھ ہو سکتا ہے پہلی شرط یہ ہے کہ نکاح سے بیشتر عورت کو اس شخص کے عنین ہونے کا علم نہ ہو، دوسری شرط یہ ہے کہ نکاح کے بعد ایک مرتبہ بھی اس عورت سے جماع نہ کیا ہو، تیسری شرط یہ ہے کہ جب سے عورت کو شوہر کے عنین ہونے کی خبر ہوئی ہے اس وقت سے عورت نے اس کے ساتھ رہنے پر رضا کی تصریح نہ کی ہو، چوتھی شرط یہ ہے کہ جس وقت سال بھر کی مدت گزرنے کے بعد قاضی عورت کو اختیار دے تو عورت اسی مجلس میں تفریق کو اختیار کرے”

واللہ اعلم بالصواب

حررہ العبد حنظلہ عمیر غفر لہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۲۰/۶/۱۴۴۱ھ

ء2020/2/15

اپنا تبصرہ بھیجیں