سورہ ہود میں عقائد کاذکر

1۔توحید اصل عقیدہ ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کی اکثریت توحید پر قائم نہیں۔(وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ) [يوسف: 106]
2۔انبیائے کرام انسانوں ہی میں سے آتے ہیں۔(وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى) [يوسف: 109]
3۔انبیائے کرام عالم الغیب نہیں ہوتے بلکہ جب اللہ کی مشیت ہوتی ہے تو ضرورت پڑنے پر غیب کی باتیں بتادی جاتی ہیں ، جیسے:حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام کو تلاش نہ کرسکے نہ ہی انہیں ان کی جائے اقامت کاعلم ہوا جب تک اللہ کو منظور نہ ہوا۔اسی طرح حضورﷺ کوحضرت یوسف علیہ السلام کاواقعہ ضرورت پڑنے پربتایا گیاپہلے معلوم نہ تھا۔{ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ} [يوسف: 3] {وَجَاءُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ} [يوسف: 18]{ ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ } [يوسف: 102]
4۔انبیائے کرام معصوم ہوتے ہیں، گناہ کے تمام اسباب موجود ہونے کے باوجود وہ گناہ سے اپنی محنت وکوشش سے بچالیتے ہیں،جیسے یوسف علیہ السلام نے دروازے کی طرف دوڑ کر گناہ سے بچنے کی کوشش کی۔ {وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (23) وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ } [يوسف: 23، 24]
5۔نبوت بھرپور عمر میں ملتی ہے کم عمری میں نہیں۔)( وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ) [يوسف: 22]
6۔نظر لگنا برحق ہے ،نظر سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا درست ہے۔لیکن اصل چیز اللہ کا حکم ہے،اسباب اختیار کیے لیکن اللہ کو منظور نہ ہوا تو کام نہیں بنے گا۔{وَقَالَ يَابَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (67) وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ مَا كَانَ يُغْنِي عَنْهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا} [يوسف: 67، 68]
7۔اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے۔( وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ) [يوسف: 87]
8۔سجدۂ تعظیمی پہلی شریعتوں میں جائز تھا ۔(وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا) [يوسف: 100]البتہ اس شریعت میں جائز نہیں۔
9۔سید اور رب کا اطلاق غیراللہ پر جائز ہےجیسے یوسف علیہ السلام کے آقا کو سید اور رب کہاگیا ہے۔( قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي) [يوسف: 23] ( وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ) [يوسف: 25]
10۔تشبیہ کے طور پر کسی انسان کو فرشتہ کہنا درست ہے۔{إِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ} [يوسف: 31]

اپنا تبصرہ بھیجیں