سورۃ المائدہ میں ذکر کردہ عقائد

1۔عقیدہ تثلیث بھی کفر ہے اور عقیدہ حلول بھی۔غیراللہ کے نام کاذبیحہ شرک فعلی بھی ہے اور حرام بھی ۔{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ، لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلَّا إِلَهٌ وَاحِدٌ} [المائدة: 72، 73]
2۔اسلام میں مزید کوئی اضافہ جائز نہیں۔حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام پورا ہوچکا اس لیے اب کسی بدعت سیئہ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔{ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي} [المائدة: 3]
3۔مرتد کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔{وَمَنْ يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ} [المائدة: 5]
4۔شعائر اللہ جیسے انبیائے کرام،زائرین بیت اللہ،مسجد، قرآن، قربانی کے جانور ، علما غرض ہرایسی چیز جس کی نسبت اللہ کی طرف ہوتی ہے ان کی تعظیم کرنی چاہیے۔{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ} [المائدة: 2]
5۔وسیلۃ بروزن فعیلۃ بمعنی قربت وعبادت،یعنی اپنے نیک اعمال کےذریعہ اللہ تعالی کاقرب تلاش کرو۔باقی کسی نبی یا بزرگ کے وسیلہ سے دعامانگنا بھی جائز ہے۔{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ } [المائدة: 35]
6۔اہل کتاب کی نقالی اور ان کی دوستی سے منع کیاگیاہے کیونکہ ان کے ملاپ سے عقائد خراب ہوسکتے ہیں اور اسلامی تشخص پر زد پڑتی ہے۔{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة: 51]
7۔فال لینے سے منع کیا گیا ہے۔{ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ} [المائدة: 3]
8۔تحریف یعنی احکام شریعت کو بدلنا سنگین جرم ہے۔ {يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ} [المائدة: 13]
7۔دین میں غلو منع ہے۔غلوکامطلب ہے معقول حدود سے آگے بڑھناجیسے مسیحیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی شان میں حدود سے تجاوز کیا اور انہیں خدا کہہ دیا۔ { يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ } [المائدة: 77]
8۔ نور قرآن کریم کی بھی صفت ہے اور آپﷺ کی بھی ،تاہم آپﷺاپنی ذات کے لحاظ سے بشر اور انسان ہی ہیں۔آپ ﷺکی کئی صفات اس سورت میں بیان ہوئی ہیں۔{قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ} [المائدة: 15، 16] {يَاأَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ} [المائدة: 19]
9۔ کافراورمشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ، کبھی اس سے نکل نہیں پائیں گے۔{يُرِيدُونَ أَنْ يَخْرُجُوا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنْهَا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ} [المائدة: 37]
10۔وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ [المائدة: 44]وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} [المائدة: 45] اور اس مضمون کی دیگر آیات کایہ مطلب نہیں کہ جوشخص اسلام کے علاوہ کسی اور قانون سے فیصلہ کرے یاکروائے وہ کافر ہے بلکہ صحابہ اور سلف کی تشریحات کے مطابق یہ کفر دون کفر کی قبیل سے ہے۔ انبیاء وغیرہ کے انکار کی طرح کاکفر نہیں بلکہ اس سے کم درجہ کاکفر یعنی ناشکری اور سخت گناہ کی قبیل سے ہے۔اس کی مثال ایسے ہی جیسے نماز کی فرضیت کومانتے ہوئے بھی مسلمان نماز چھوڑ بیٹھتا ہے اسی طرح مسلمان اسلامی قانون کوحق مانتے ہوئے بھی بسااوقات دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا کراتا ہے۔
11۔یہی حکم تشبہ بالکفار کاہے ۔تشبہ بالکفار یعنی اغیار اور فساق کی نقالی منع ہے {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ } [المائدة: 51] لیکن اگر کوئی اس کے باوجود بھی نقالی کرتا ہے تو سخت گناہ ہے لیکن وہ کافر نہ ہوگا بلکہ ناشکری کہلائے گی۔
12۔اللہ تعالی کی طرف ہاتھوں وغیرہ کی جو نسبت يَدَاهُ مَبْسُوطَتَان [المائدة: 64] میں کی گئی ہے ،یہ سب متشابہات میں سے ہے۔
13۔آپﷺنے کوئی بھی وحی اور اللہ کاکوئی بھی پیغام نہیں چھپایا۔{ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ } [المائدة: 67]
14۔جن کی تقلید کی جائے وہ اگر نیک اور اہل علم میں سے ہوں تو وہ تقلید جائز ہے،وہ تقلید ناجائز ہے جو جاہل کی ہو یا نصوص کے خلاف ہو۔( قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ} [المائدة: 104]
15۔قیامت اور اس دن سوال وجواب برحق ہے۔{يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ} [المائدة: 109]

اپنا تبصرہ بھیجیں